Saturday, December 14, 2013

Aman ki Asha....


Mehngai ki Asal Waja -- Nusrat Javed

خلقِ خدا کی بات کریں تو یقیناً ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ صرف زندہ رہنے کی خاطر ہمہ وقت مشقت کرتے لوگوں کو اس بات سے واقعتاََ کوئی غرض نہیں کہ ان کے ملک میں جمہوریت ہے یا آمریت۔ عدلیہ کا سربراہ کون ہے اور اسے اپنی قوت و اختیار کو کیسے استعمال کرنا چاہیے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو ہنگامے برپا ہوتے رہتے ہیں، ہمارے عوام کی کثیر تعداد ان سے لطف اندوز ہونے کے مواقع ہی نہیں ڈھونڈ پاتی۔ ہم صحافیوں کو خلقِ خدا کی مہنگائی کے بارے میں غم و غصے کا خوب علم ہے۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھ جائیں تو اس کا ذکر کیے بنا Ratings نہیں ملتیں۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی کے موضوع پر محض سیاپا فروشی خلقِ خدا کی کوئی مدد کر بھی سکتی ہے یا نہیں۔
اب تک مہنگائی کے بارے میں ہم صحافیوں کا ’’طریقہ واردات‘‘ بس اتنا رہا ہے کہ اپنے سے جونیئر لوگوں کو کیمرہ دے کر بازار میں بھیج دو۔ وہ بازار میں موجود افراد کے Sots یعنی Sound on Tapes جمع کر کے آپ کے لیے ایک کربناک Package بنا دیتا ہے۔ اپنے پروگرام میں آپ اسے Play کرتے ہیں اور مختلف جماعتوں کے نمایندوں سے بار بار یہ سوال کہ عوام کی مشکلات کا ازالہ کیسے ہو۔ مہنگائی جیسے گنجلک مسئلے کے مسلسل تذکرے سے ہم لوگوں نے عوام میں یہ تاثر محکم کر دیا ہے کہ اگر ہمارے حکمران مجسٹریٹوں کو بازاروں میں مسلسل بھیجیں اور دکانداروں کو نمایاں طور پر چسپاں نرخناموںPrice   List کے مطابق چیزیں بیچنے پر مجبور کریں تو شاید اس ملک میں مہنگائی ختم ہو جائے۔ ہمیں چونکہ بازاروں میں مجسٹریٹس اکثر یہ کام کرتے نظر نہیں آتے اس لیے ہمیں یہ سیاپا کرنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے کہ چونکہ ہمارے حکمران ’’قومی دولت لوٹ کر‘‘ محل نما مکانوں میں محصور ہو بیٹھے ہیں اس لیے انھیں عوام کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔ وہ مجسٹریٹوں کو بازاروں میں بھیجنے کا تردد ہی نہیں کرتے۔
کسی بھی ملک کی اشرافیہ اپنے عوام کے حقیقی مسائل سے عموماََ بے خبر ہی ہوا کرتی ہے۔ یہ واقعہ صرف پاکستان ہی میں رونما نہیں ہوتا۔ جمہوریت کا سب سے بڑا حسن مگر یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے لیے اس نظام میں طاقتور ترین فرد کو بھی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ووٹ صرف اسی صورت ملتے ہیں اگر کوئی سیاستدان لوگوں کی روزمرہّ ضروریات کے حوالے سے کوئی نہ کوئی Feel Good  Factor پیدا کر سکے۔ سیاستدانوں کے ووٹ پر انحصار سے میڈیا کو پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذرا سنجیدگی، خلوص اور لگن کے ساتھ مہنگائی کے حقیقی اسباب کا سراغ لگانا چاہیے۔ حقیقی اسباب کا سراغ لگانا ہی کافی نہیں۔ اصل ہنر یہ بھی ہے کہ ان اسباب کو عام آدمی کو سمجھانے کے لیے بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
نواز شریف کی تیسری حکومت آتے ہی مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتخابی مہم کے انتہائی گرم موسم میں سارا ملک لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹوں کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔ ہمارے پاس لوگوں کی ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ مگر بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو دینے کے لیے سرکاری خزانے میں وافر رقوم موجود نہ تھیں۔ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ امریکا Coalition Support Fund کے روکے ڈالر ادا کر دے گا تو وہ انھیں بجلی پیدا کرنے والوں میں بانٹ دے گی۔ واشنگٹن مگر اس حکومت سے اس لیے ناراض ہو گیا کہ اس نے سلالہ واقعہ کے بعد افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی سات ماہ تک بند رکھی۔ جب تک یہ قضیہ حل ہوا اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور پیپلز پارٹی کو اس کی سزا انتخابات کے نتائج کی صورت بھگتنا پڑی۔
نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بجلی اور ووٹ کے باہمی تعلق کا خوب اندازہ تھا۔ اسی لیے تیسری بار حکومت سنبھالتے ہی ان لوگوں نے اجلاس کے بعد اجلاس برپا کیے۔ بالآخر 500 ارب روپے کی یک مشت ادائیگی کے بعد لوڈشیڈنگ کا بحران خوش گوار حد تک ختم کر دیا گیا۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات پا جانے کے بعد ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ سرکلرڈیٹ کے 500 ارب روپے کیسے اکٹھا اور ادا کیے گئے۔ ناک سیدھی طرح پکڑیں یا ہاتھ موڑ کر حقیقت یہ ہے کہ ان رقوم کی ادائیگی کے لیے درحقیقت نوٹ پر نوٹ چھاپنا پڑے۔ یہ نوٹ چھپے تو پاکستانی روپے کی قدر کم ہو گئی۔ روپے کی قدر کم ہو تو اس کا سب سے بڑا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔
درآمد شدہ تیل کی قیمت بڑھے تو ڈیزل کی وجہ سے کاشتکار کے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی فصل کٹ جائے تو اسے مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹرز بھی اپنے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ مختصراََ آڑھتی سے دکاندار تک کوئی شے پہنچتے پہنچتے پہلے سے کہیں زیادہ مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔ کوئی مجسٹریٹ کسی دکاندار کو یہ اشیاء ان کی قیمت خرید سے کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ زیادہ تنگ کرے گا تو لوگ دکانیں بند کر دیں گے تو اشیاء منہ مانگی قیمت پر بھی بازاروں میں نظر نہیں آئیں گی۔ روزمرہّ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو قابلِ برداشت سطح تک رکھنے کے لیے سب سے بنیادی بات اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ پاکستان کی ریاست اب بازار سے مہنگی بجلی خرید کر اسے صارفین کو سستے داموں فروخت کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ بتدریج مجھے اور آپ کو کم از کم اپنے بلوں کے ذریعے وہ قیمت واپڈا کو ضرور ادا کرنا ہو گی جس قیمت پر وہ اسے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے خریدتا ہے۔ اس کے بغیر جو کچھ کہا جا رہا ہے صرف اور صرف سیاپا ہے اور کچھ نہیں۔
اپنے جواں سال دوست دانیال عزیز کا میں اس لیے بھی شکر گزار ہوں کہ بدھ کے دن قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس نے بالآخر تفصیل سے سمجھا ہی دیا کہ صوبائی حکومتوں اور مجسٹریٹوں کے پاس قیمت کم کرنے کا کوئی نسخہ موجود نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل صرف اور صرف وزیر خزانہ کے پاس ہے۔ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دانیال نے ہمیں یاد دلایا کہ ماضی کے وزیر خزانہ شوکت ترین اور آج کے اسحاق ڈار دونوں نے IMF کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ افراطِ زر میں کمی کرنے کے لیے سخت Monetary اقدامات کریں گے۔ آسان الفاظ میں بین الاقوامی اداروں سے بھاری بھر کم امدادی قرضہ لیتے ہوئے یہ وعدے کیے گئے تھے اس ملک کے بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد کو بینکوں سے جو قرضے دیے جاتے ہیں ان کی شرح سود بڑھائی جائے گی۔ ماضی اور اب کی حکومت نے یہ وعدہ کرنے کے بعد اپنی ضرورت کی رقوم تو IMF وغیرہ سے حاصل کر لیں مگر قومی بینکوں کی طرف سے دی گئی رقوم کی شرحِ سود میں ہرگز کوئی اضافہ نہ کیا۔ بینکوں سے قرضے لینے والے بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد کے لیے زندگی ویسے ہی آسان رہی اور مہنگائی کا سارا بوجھ میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ لوگوں کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ دانیال نے باتیں تو سو فیصد درست بتائیں۔ مگر میں اس کی تقریر کے دوران یہی سوچتا رہا کہ نواز شریف اور ان کے اسحاق ڈار اپنی ہی صنعتی اور کاروباری افراد پر مشتمل برادری پر کوئی بوجھ کیوں ڈالیں گے؟

Thursday, December 12, 2013

Bitter Truth about Iftikhar Ch by Javed Ch

ہم اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی خوبیوں اور خامیوں کی بیلنس شیٹ بنائیں تو ان کی خوبیوں کا خانہ بڑا بھی ہو گا اور مکمل بھی‘ چوہدری صاحب سے پہلے سپریم کورٹ کے 19 چیف جسٹس گزرے ہیں لیکن جتنی عزت‘ شہرت اور مقبولیت افتخار محمد چوہدری کو نصیب ہوئی اتنی اللہ تعالیٰ نے کسی دوسرے جج اور چیف جسٹس کو نہیں دی‘ ہمارے آئین نے ہر چیف جسٹس کو بے تحاشا اختیارات دیے مگر ان اختیارات کو استعمال صرف افتخار محمد چوہدری نے کیا‘ چوہدری صاحب نے جہاں جنرل پرویز مشرف کے غرور کے قلعے میں سوراخ کیے‘ یہ جہاں شوکت عزیز کے عزائم کے راستے کی دیوار بنے‘ یہ جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی بنے‘ انھوں نے جہاں 2008ء کے الیکشن کی راہ ہموار کی‘ یہ جہاں عوام کو سڑکوں پر لے آئے‘ یہ جہاں آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور چوہدری پرویز الٰہی کی بے مہار خواہشوں کو لگام پہناتے رہے‘ یہ جہاں کراچی کے طاقت کے بت توڑتے رہے‘ یہ جہاں این آئی سی ایل‘ ایفی ڈرین‘ حج سکینڈل اور رینٹل پاور پلانٹس سکینڈل کے گلے کی ہڈی بن گئے اور یہ جہاں 2013ء میں پرامن سیاسی تبدیلی کے ضامن ثابت ہوئے‘ یہ وہاں عام مظلوم پاکستانیوں کی آواز بھی بن گئے‘ چوہدری صاحب کے دور میں عام لوگ ایک سادے کاغذ پر درخواست لکھ کر سپریم کورٹ بھجوا دیتے تھے اور چیف جسٹس فرعونوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس شخص کو انصاف دلاتے تھے
سپریم کورٹ میں ہیومن رائیٹس کمیشن بنا اور اس کمیشن نے ایک لاکھ ستاسی ہزار سات سو چون عام لوگوں کو انصاف دلایا‘ چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس کو انصاف کی تلوار بنا دیا اور یہ تلوار آٹھ سال تک پورے سسٹم کی گردن پر لٹکتی رہی‘ یہ پاکستان کے ان فرعونوں کو بھی قانون کے سامنے جھکانے میں کامیاب ہو گئے جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے تھے‘ افتخار محمد چوہدری کے دور میں چیف آف آرمی اسٹاف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور آئی جی‘ چیف سیکریٹریز اور وفاقی سیکریٹریز بھی ‘ عدالتی احکامات کے ذریعے بے شمار بیوروکریٹس اپنی نوکریوں سے بھی فارغ ہوئے‘ افتخار محمد چوہدری کے حکم سے وزیر اعظم تک فارغ ہوا اور ان مِسنگ پرسنز کی آواز بھی عالمی فورمز تک پہنچی جنھیں ہمارا نظام ظلم کے بعد آہ تک لینے کی اجازت نہیں دیتا تھا‘ عدالت نے چوہدری صاحب کے دور میں آلو‘ ٹماٹر اور چینی سے لے کر بجلی اور گیس کی قیمتیں تک کنٹرول کیں اور عوام کو ان اقدامات سے ریلیف بھی ملا اور جانبدار سے جانبدار شخص بھی ان کے ان اقدامات کو مسترد نہیں کر سکتا‘ چوہدری صاحب کے عروج نے ثابت کیا‘ ہمارے سسٹم میں ایک خوفناک ’’گیپ‘‘ موجود ہے‘ ہمارا سسٹم عام شہریوں کو ریلیف نہیں دے رہا‘ عوام اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں‘ افتخار چوہدری اس عدم اطمینان‘ اس بے چینی اور اس ’’گیپ‘‘ کی پیداوار تھے‘ یہ سسٹم اگر ’’ورک‘‘ کر رہا ہوتا تو شاید افتخار محمد چوہدری کو اتنی پذیرائی نہ ملتی‘ یہ اتنے پاپولر نہ ہوتے‘ چوہدری صاحب کے جانے کے بعد بھی یہ گیپ‘ یہ عدم اطمینان موجود ہے اور یہ بے چینی اور یہ گیپ نہ صرف مستقبل میں چوہدری صاحب جیسے کردار پیدا کرتا رہے گا بلکہ ان جیسے لوگوں کی پیداوار میں اضافہ بھی ہو گا کیونکہ چوہدری صاحب اس معاشرے میں ایک کامیاب مثال بن چکے ہیں‘ یہ ان اداروں اور شخصیات کا خوف توڑ چکے ہیں جن کی اجازت کے بغیر ملک میں پتا نہیں ہلتا تھا اور جن کے اشارۂ ابرو سے وفاداریاں  تبدیل ہوا کرتی  تھیں‘ افتخار محمد چوہدری نے یہ بھی ثابت کر دیا ہمارے معاشرے میں اگر ایک شخص کھڑا ہو جائے تو یہ ظلم اور زیادتی کے مضبوط ترین نظام کو پسپا ہونے پر مجبور کر سکتا ہے اور یہ چوہدری صاحب کے کارناموں کی فہرست میں شاہ کارنامہ ہے۔
ہم جہاں افتخار محمد چوہدری کے کارناموں کا اعتراف کر رہے ہیں وہاں آج ان کی چند خامیوں یا چند غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے‘ چوہدری صاحب سے چند غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور ان جیسے بڑے انسان کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘ چوہدری صاحب کی سب سے بڑی خامی ان کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار ہیں‘ چوہدری صاحب نے شوکت عزیز کے دور میں انھیں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے پولیس فورس میں داخل کرایا‘ یہ تقرری خلاف قاعدہ تھی اور یہ ایشو بعد ازاں حکومت سے ان کی لڑائی کی وجہ بنا‘ ڈاکٹر ارسلان گزشتہ آٹھ برسوں میں کئی بار چیف جسٹس کی بدنامی کی وجہ بنے‘ ملک ریاض سے رقم وصول کرنے کا ایشو ہو‘ مونٹی کارلو اور لندن کے دورے اور مہنگی ترین شاپنگ ہو‘ موبائل فونز کے ٹاورز کے ٹھیکے ہوں یا تھری جی لائسنس کا ایشو ہو ڈاکٹر ارسلان پر بے شمار الزام لگے اور یہ الزامات چیف جسٹس اور عدلیہ کی بدنامی کا باعث بنے‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ چیف صاحب نے اگر سفید اجلی قمیض پہن رکھی تھی تو پھر انھیں اپنے دامن کو سیاہی سے بھی بچا کر رکھنا چاہیے تھا‘ یہ اپنے صاحبزادے کو بھی کنٹرول کرتے۔
چیف جسٹس حکومت سے غیر ضروری پروٹوکول اور سیکیورٹی بھی لیتے رہے‘ انھوں نے وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں سے صدر‘ وزیر اعظم اور غیر ملکی سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول لیا‘ یہ پروٹوکول غیر قانونی بھی تھا اور بلاجواز بھی‘ چیف جسٹس بلیو بک کے تحت یہ پروٹوکول اور سیکیورٹی نہیں لے سکتے تھے لیکن چیف جسٹس کے پاس ایک بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو‘ ایک مرسڈیز بھی تھی‘ انھیں رینجرز کا اسکواڈ بھی ملا ہوا تھا‘ پولیس کے دستے بھی اور ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی‘ ان کے ساتھ ایس پی‘ ایک ڈی ایس پی‘ ڈی ایس پی ٹریفک اور کمانڈوز بھی ہوتے تھے‘ یہ اسلام آباد ائیر پورٹ یا موٹروے کے لیے نکلتے تھے تو ان کے راستے میں دو سو سے پانچ سو تک پولیس اہلکار کھڑے ہوتے تھے جب کہ ایس پی لیول کا ایک پولیس آفیسر اس کاروان کی نگرانی کرتا تھا‘ یہ سیکیورٹی ان کی فیملی کو بھی حاصل تھی‘ فیملی جب گھر سے نکلتی تھی تو ’’اعظم ون‘‘ کے نام سے وائر لیس پر پیغام نشر ہوتا تھا اور پولیس خاندان کے افراد کو وزیر اعظم کی فیملی کے برابر پروٹوکول اور سیکیورٹی دینے پر مجبور ہوتی تھی‘ چیف صاحب اور ان کی فیملی کے لوگ اکانومی کلاس کے ٹکٹ پر بزنس کلاس میں بھی سفر کرتے تھے‘ ائیر پورٹ پر ان کی گاڑی جہاز کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی اور یہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اور یہ اقدام ائیر پورٹ سیکیورٹی اور مسافروں کے لیے خطرناک بھی تھا‘ یہ سول ایوی ایشن کے بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی‘ لاہور اور کراچی ائیر پورٹ پر جہاز ٹنلز کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اور تمام مسافر ٹنل کے ذریعے جہاز میں آتے ہیں اور لائونج سے باہر نکلتے ہیں‘ چیف جسٹس ٹنل کے ذریعے جہاز سے نہیں نکلتے تھے چنانچہ انھیں لاہور اور کراچی ائیر پورٹ پر ایمرجنسی سیڑھی کے ذریعے جہاز سے اتارا جاتا تھا اور یہ وہاں سے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو جاتے تھے جب کہ اگر وزراء اعلیٰ‘ گورنرز اور وزیر اعظم کمرشل فلائٹ پر سفر کر رہے ہوں تو یہ ٹنل اور لائونج کے ذریعے باہر آتے ہیں‘ ائیر پورٹس پر مسافروں کی سیٹیں تبدیل کر کے ان کی فیملی کو جہازوں میں سوار کیا جاتا تھا اور انھیں الگ گاڑی میں بٹھا کر لائونج تک لایا جاتا تھا‘ چیف جسٹس کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پر ایس پی کھڑے ہوتے تھے اور یہ ان کی منزل تک انھیں پروٹوکول دیتے تھے‘ یہ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ جاتے تھے تو ان کے ساتھ سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ستر اسی اہلکار ہوتے تھے اور ان کے لیے راستے کے ٹریفک سگنلز بند کر دیے جاتے تھے‘ چیف جسٹس کے راستے میں دو‘ تین اور بعض اوقات پانچ سو تک پولیس اہلکار بھی کھڑے کیے جاتے تھے‘ ہو سکتا ہے چیف جسٹس کو سیکیورٹی کی ضرورت ہو لیکن پروٹوکول اور سیکیورٹی میں بہت فرق ہوتا ہے‘ چیف جسٹس کو سیکیورٹی کم پروٹوکول دیا جاتا تھا جو قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط تھا‘ چیف جسٹس میڈیا پر ڈسکس ہونا بھی پسند کرتے تھے‘ ان پر الزام تھا یہ ہر اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دیتے تھے جو میڈیا پر اہمیت اختیار کرتا تھا‘ یہ اس کیس کو دو‘ دو تین تین مہینے گھسیٹتے تھے اور آخر میں غیر واضح فیصلہ جاری کر دیتے تھے‘ آپ اصغر خان کیس‘ کراچی بدامنی کیس‘ میمو سکینڈل‘ حج کرپشن کیس اور مسنگ پرسنز کیس کی مثال لے سکتے ہیں‘ یہ مقدمے کئی ماہ تک زیر سماعت رہے لیکن فیصلہ آیا تو یہ ادھورا تھا یا پھر فیصلے کی ذمے داری کسی سرکاری محکمے پر ڈال دی گئی تھی‘ چیف صاحب پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا تھا‘ ان کے چیمبر کی کھڑکی میڈیا ہائوس میں کھلتی تھی‘ میڈیا کبھی مقبولیت کی گیند اس کھڑکی کے اندر پھینک دیتا تھا اور کبھی چیف صاحب کوئی گیند اٹھا کر میڈیا کی جھولی میں ڈال دیتے تھے اور یوں سپریم کورٹ اور میڈیا دونوں ایک دوسرے کے دوست بن کر آگے بڑھتے رہے۔
یہ وہ چند غلطیاں یا خامیاں تھیں جن کی وجہ سے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے امیج کو نقصان پہنچا‘ میری نئے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی سے درخواست ہے آپ کم از کم پروٹوکول کے آرڈرز ضرور واپس لے لیں کیونکہ جب کسی وی وی آئی پی کے لیے ٹریفک سگنل بند ہوتے ہیں‘ ٹریفک بلاک کی جاتی ہے یا پھر لوگوں کے سامنے سے ٹیں ٹیں کرتی ہوئی گاڑیاں گزرتی ہیں تو لوگ ان گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور بددعائیں بھی دیتے ہیں اور کم از کم ہماری سپریم عدلیہ اور اس کے چیف کو ان بددعائوں اور اس برے بھلے سے بچنا چاہیے‘ ان میں اور استحصالی حکمرانوں میں فرق ہونا چاہیے‘ کم از کم ہماری عدالتوں کو قانون اور اخلاقیات کا احترام ضرور کرنا چاہیے۔

Wednesday, December 11, 2013

Wakeel bhe Khush

تین نومبر سنہ 2007 میں پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدے پر اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججوں کو بحال کروانے کے لیے چلنے والی تحریک کے کرتا دھرتا افراد شاید افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر اُتنی ہی خوشی محسوس کر رہے ہیں جتنی اُنھیں 16 مارچ سنہ 2009 کو افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی پر ہوئی تھی۔
اس عرصے میں وکلا تحریک کے سرکردہ رہنما چیف جسٹس سے دور ہوتےگئے۔ شاید اس کی وجہ افتخار محمد چوہدری کے ایسے اقدامات ہیں جن پران رہنماؤں کو تحفظات تھے۔
اُن رہنماؤں میں چوہدری اعتزاز احسن، علی احمد کُرد، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، سردار لطیف کھوسہ شامل ہیں۔ دوسری جانب منیر اے ملک اور حامد خان کے نام افتخار محمد چوہدری کے حمایتی گروپ کے طور پر لیے جاتے ہیں۔
سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے ججز بحالی کے لیے وکلا تحریک میں سب سے پہلے اپنا خون دیا۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر وکلا کے مظاہرے کے دوران پولیس نے جن کے سر پر سب سے پہلے لاٹھی برسائی وہ سردار لطیف کھوسہ تھے۔
سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلا نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پرانھیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔

’تحریک کا مقصد پورا نہیں ہوا‘


سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلا نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد شاید پورا نہیں ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنھیں اپنا حق لینے کے لیے برسوں بیت جاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری نے اس عرصے کے دوران جتنا وقت از خود نوٹس لینے اور ریاست کے دیگر اداروں کے امور میں مداخلت میں صرف کیا اتنا وقت وہ ضلعی عدالتوں میں اصلاحات پر صرف کرتے تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔
اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2007 کی تحریک کے بعد بحال ہونے والی اعلیٰ عدلیہ گذشتہ ادوار سے بہتر ضرور ہے لیکن اس کے اثرات نچلی عدالتوں تک نہیں پہنچے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ افتخار محمد چوہدری نے ایسے معاملات پر از خود نوٹس لیے یا ایسے مقدمات کی سماعت کی جن کی وجہ سے وہ مقامی میڈیا پر چھائے رہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن اُن کا بیان یا اُن کے ریمارکس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت نہ بنے ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انھیں وکلا تحریک کا رہنما ہونے پر تو کوئی افسوس نہیں ہے البتہ مایوسی ضرور ہوئی کہ جس مقصد کے لیے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا اُس کے ثمرات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کہتے ہیں کہانھوں نے اُس وقت چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور اُن پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جب عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کی۔
اُنھوں نے کہا کہ اس مخالفت کی وجہ سےانھیں مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا کیونکہ جب اُن کے موکلوں کو یہ احساس ہوا کہ طارق محمود چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف ہے توانھوں نے مقدمات واپس لے لیے۔
علی احمد کُرد بھی اُن وکلا میں شامل ہیں جنھوں نے اس تحریک میں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے کارواں کی لمحوں کی مسافت کو گھنٹوں اور پھر دنوں میں طے کیا لیکن افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد وہ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
خاصے عرصے تک گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل وہ منظر عام پر آئے ہیں۔
چیف جسٹس کے حمایتی وکلا کے گروپ سے علیحدگی کے سوال پر وہ کُھل کر بات نہیں کر رہے۔ تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

’در بدر کی ٹھوکریں‘

چیف جسٹس کے وکلا حمایتی گروپ سے علیحدگی کے سوال پر علی احمد کرد کُھل کر بات نہیں کر رہے تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وکلا نے عدلیہ بحالی کی تحریک افتخار محمد چوہدری کے لیے نہیں بلکہ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے شروع کی تھی جس کا حصول آج تک ممکن نہیں ہوا۔
علی احمد کُرد شاید 11 دسمبر کے بعد اس معاملے پر کُھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں گے جب افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
16 مارچ 2009 کو افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد وکلا دو حصوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں، ایک گروپ چیف جسٹس کا حمایتی اور دوسرا اُن کا مخالف ہے۔
بیرسٹر اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلا کے سرکردہ رہنما بھی چیف جسٹس کے مخالف گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ ان وکلا رہنماؤں نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کو تعینات کرنے کے لیے نام تجویز کرنے کے چیف جسٹس کے اختیار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان کو بھی نام تجویز دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔
افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے بعد اُن کا حمایتی سمجھا جانے والا وکلا کا گروپ مسلسل چار سال سے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر چاروں صوبوں کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنوں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اُن کے اعزاز میں الوداعی تقریبات کا بھی اہتمام نہیں کیا۔
افتخار محمد چوہدری کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے وکلا گروپ کے چند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ردِعمل افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد دیں گے۔

Sassta ya Mehnga Insaf

پاکستان میں فوری اور سستا انصاف عوام کےلیے ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کی تحریک میں جہاں ایک طرف وکلا برادری سرگرم نظر آئی وہیں عام لوگوں نے بھی اس میں بھرپور دلچسپی لی۔
ججوں کی بحالی میں عوامی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ سستے انصاف کے حصول کا خواب تھا۔

سنہ 2007 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والی عدلیہ بحالی کی تحریک 16 مارچ سنہ 2009 کو چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کی بحالی کی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
اس وقت عوام کا مرکزِ نگاہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو اب ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وکلا کی کامیاب کے نتیجے میں عدلیہ تو آزاد ہوئی لیکن عام لوگوں کے مسائل شاید پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
لوگوں کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کی حقیقت جاننے کے لیے جب سپریم کورٹ کا رخ کیا تو وہاں ایک سائل محمد شریف کیانی سے ملاقات ہوئی۔
ذیلی عدالتوں میں وکلا کی بھاری فیسیں ادا کرتے کرتے تھک جانے کے بعد وہ سپریم کورٹ کے دروازے پر تھے لیکن انصاف کے لیے چیف جسٹس کو لکھی گئی درخواست کی شنوائی نہ ہو سکی۔
وہ کہتے ہیں: ’ضلعی عدالت میں بیٹی کے حق میں ڈگری ہوئی تو مخالف پارٹی دوسری عدالت میں چلی گئی اور اب اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے وکیل کو پچاس ہزار روپے کی فیس دی اور پھر دوسرے کو مالی حالات خراب ہونے کے باوجود ایک لاکھ روپے دیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اب ایک ماہ سے زیاہ عرصہ ہوگیا ہے چیف جسٹس صاحب کو درخواست دی ہے، آج کوئی امید تھی کہ کچھ ہو جائے گا لیکن وہ بڑے کیس میں مصروف تھے۔‘
جب ان سے پوچھا کہ چیف جسٹس تو کل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو شریف کیانی نے کہا کہ ’ان سے بہت امیدیں تھیں لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔‘
"اگر کسی وکیل کی خدمت حاصل کی ہوتی تو آج میں یہاں نظر نہیں آتا کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی میں وکلاء کی فیسیں برداشت کر سکتا تھا۔"
سید محمد اقتدار حیدر
سپریم کورٹ کے باہر ہی سید محمد اقتدار حیدر سے ملاقات ہوئی جو سنہ 1997 سے عدالتوں میں اپنے مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا کہ کسی وکیل کی خدمات کیوں حاصل نہیں کیں تو ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی درخواست دائر کرنا سیکھ لیا۔
’ اگر کسی وکیل کی خدمت حاصل کی ہوتی تو آج میں یہاں نظر نہیں آتا کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی میں وکلا کی فیسیں برداشت کر سکتا تھا۔‘

’انصاف سب کے لیے‘ وکلا کی رائے


علی احمد کرد انصاف کی موجودہ صورتحال سے مایوس ہیں
کیا واقعی اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد فوری اور سستے انصاف کا خواب پورا نہیں ہو سکا اور انصاف کا حصول مزید مہنگا ہو گیا ہے؟
"بس کیا کہوں ایک آدمی کو قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا اور ایک عام اور غریب آدمی کا حال ویسے کا ویسے ہی ہے۔"
علی احمد کرد
اس پر وکلاء تحریک میں’ انصاف سب کے لیے‘ کے نعرے لگانے والے جوشیلے وکیل رہنما علی احمد کرد سے بات کی تو انہوں نے دلبراشتہ ہو کر کہا کہ اس پر بات کرنے کا دل نہیں کرتا ہے۔
’بس کیا کہوں ایک آدمی کو قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا اور ایک عام اور غریب آدمی کا حال ویسے کا ویسے ہی ہے۔‘
اس پر مزید بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ چیف جسٹس کے دور میں انصاف بالکل مہنگا ہوا۔
"
’کچھ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ چونکہ تحریک انہوں چلائی تھی اس لیے اس کی اونرشپ کے حق دار بھی وہی ہیں اور یہ تاثر دینا شروع کر دیا۔ جبکہ موکل کو اس بات سے مقصد ہوتا ہے کہ اس کو ریلیف ملے چاہے اس کا حق بنتا ہے یا نہیں۔‘
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کے مطابق وکلا کی فیسیوں میں اضافے کے علاوہ انصاف کے مہنگے ہونے کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں عام مقدموں کے علاوہ ازخود نوٹس کے مقدموں کی سماعت ہے۔
’ ان کیسز کو زیادہ وقت دیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے دیگر مقدمات کو وقت نہیں مل پاتا تھا جس کی وجہ سے دیگر شہروں سے آنا جانا اور اسلام آباد میں رکنا موکل کو ہی برداشت کرنا پڑا تھا۔‘

چیف جسٹس کا کردار

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلا کے معاوضے میں اضافے اور ان سے قربت کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کیے؟
"افتخار چوہدری ملکی تاریخ کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس تھے اور ان کی عدلیہ کے بارے میں جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کو حل کرنے کی جانب توجہ دیتے۔"
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود
اس پر جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کو اس طرح کے وکلا کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہیے تھی۔’لیکن ہمارے سامنے تھا کہ انھوں نے ضلعی بار ایسویشی ایشنز کے دورے کیے اور انتخابات کے بعد ان سے جا کر حلف لیا اور چیف تیرے جانثار کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے۔‘
نچلی سطح پر سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’افتخار چوہدری ملکی تاریخ کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس تھے۔’اگر وہ اپنے ادارے کی جانب زیادہ توجہ دیتے تو آج فخر سے یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ انتظامیہ اور مقننہ کے برعکس عدلیہ نے اپنا کام کیا۔ آج اگر پارلیمان اور انتظامیہ پر بات ہوتی ہے تو عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔‘

Aik Hangama Khez Daur

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ میں 13 سال گزارنے کے بعد 12 دسمبر کو ریٹائر ہو گئے۔
اس 13 سالہ دور میں انھوں نے تقریباً آٹھ سال بطور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے طور گزارے جس دوران فوجی حکمران نے اپنا پورا زور لگا کر انھیں دو بار عدالت سے نکالا مگر وہ دونوں بار عوامی حمایت کے بل بوتے پر واپس سپریم کورٹ میں آ گئے۔
افتخار چوہدری کا دور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے ہنگامہ خیز رہا۔
انھیں سپریم کورٹ میں جج بننے کا موقع اس وقت ملا جب سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا۔
جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ میں بطور جج پہلا حلف پی سی او جج کے تحت ہی لیا لیکن بطور چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے والے پچاس کے قریب ججوں کو عدالتوں سے نکال باہر کیا۔ وہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا۔ بعد میں افتخار چوہدری نے اسی نظریہ ضرورت کو ’دفن‘ کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔

افتخار چوہدری ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا
جسٹس افتخار چوہدری سپریم کورٹ میں تعیناتی کے پانچ سال کے اندر ہی چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچ گئے۔ جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بننے کی اتنی جلدی تھی کہ انھوں نے جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سینیارٹی کو چیلنج کر دیا۔ اگر جسٹس افتخار چوہدری سینیارٹی کی تنازعے میں جیت جاتے تو وہ 2005 کی بجائے 2003 میں ہی چیف جسٹس بن چکے ہوتے۔
جنرل پرویز مشرف کو اپنے دونوں عہدے رکھنے سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک اور قانونی لبادے کی ضرورت تھی تو انھیں جسٹس افتخار چوہدری ’ناقابلِ اعتبار‘ لگے۔
جنرل مشرف کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کو چیف جسٹس کی طرف سے اپنے بیٹے کو نوازنے پر اعتراض نہیں تھا لیکن انہیں پریشانی اس بات کی تھی کہ چیف جسٹس نے کئی فوجی جرنیلوں سے ذاتی تعلقات بنا لیے تھے اور اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو بھی ایک جنرل کا داماد بنوا لیا تھا۔ البتہ اس جنرل کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ رشتہ بھی ختم ہو گیا۔
پرویز مشرف نے پہلی بار جب افتخار چوہدری کو سپریم کورٹ سے نکالنے کی کوشش کی اور ان پر اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر اپنے بیٹے کے کریئر میں مدد دینے کا الزام لگایا تو پاکستان کے لوگوں نے افتخار چوہدری کی طرف سے فوجی آمر کو’ نہ‘ کرنے کی ہمت کو خوب سراہا اور انہیں واپس سپریم کورٹ میں پہنچا دیا۔

نظریہ ضرورت

جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ میں بطور جج پہلا حلف پی سی او جج کے تحت ہی لیا لیکن بطور چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے والے پچاس کے قریب ججوں کو عدالتوں سے نکال باہر کیا۔ وہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا۔ افتخار چوہدری نے اسی نظریہ ضرورت کو ’دفن‘ کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔
جنرل مشرف نے جب دو ماہ بعد ایمرجنسی اختیارات کا سہارا لے کر افتخار چوہدری کو نکالا تو بڑی سیاسی جماعتوں کو جنرل پرویز مشرف کی طاقت پر گرفت کو کمزور کرنے کا موقع ملا۔
اسی دوران پرویز مشرف کا دور ختم ہو گیا اور ایوانِ صدر کا مکین بدل گیا۔ اس نئے صدر نے بھی جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا لیکن بالآخر اسے ہار مانی پڑی اور افتحار چوہدری قریباً دو سال کے بعد دوسری بار سپریم کورٹ پہنچ گئے اور 12 دسمبر 2013 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
صدر زرداری کو افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور کئی برس تک سوئٹزرلینڈ کے حکام کو خط لکھنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے ایک وزیراعظم کی قربانی دے دی اور آخرِکار اس وقت خط لکھا جب اس خط لکھنے کا شاید وقت ہی گزر چکا تھا۔ سپریم کورٹ بھی اس جھگڑے میں اتنی تھک چکی تھی کہ اس نے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ڈرافٹ کو مان کر جان چھڑا لی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جوڈیشیل ایکٹیوزم کا ایسا بازار گرم کیا کہ ان پر طرح طرح کے الزام لگنا شروع ہو گئے۔ ان کی جانب سے جنرل مشرف کی حامی اداکارہ کے سامان سے مبینہ طور پر شراب کی دو بوتلیں برآمد ہونے کی خبر پر ازخود نوٹس لینے پر نہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بنے بلکہ لوگوں کا ان پر اعتبار بھی کم ہوتا گیا۔

چیف جسٹس نے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات کو رکوانے کے بعد اسے دو افراد کے مابین لین دین کا معاملہ قرار دے کر اسے ختم کر دیا
سابق چیف جسٹس افضل ظلہ نے سنہ نوے اکانوے میں جب آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عوامی نوعیت کے معاملات اٹھانے شروع کیے تو انھوں نے پوری کوشش کی کہ وہ ایسے مقدموں کا فیصلہ کریں جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ریلیف ملے۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس طاقت کا استعمال سوائے سیاسی حکومتوں کو تنگ کرنے کے لیے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ایسے مقدمات کا نوٹس لینا شروع کیا کہ حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ سپریم کورٹ نے انھیں کام کرنے کا موقع ہی نہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کا مقدمہ شروع کیا لیکن آخری دنوں تک اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ دے سکے۔
چیف جسٹس نے عوامی خواہشات پر ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن جب اپنے بیٹے ارسلان افتخار پر کروڑوں روپے کے لین دین کا معاملہ سامنے آیا تو پھر اسی اخلاقی طاقت سے محروم ہو گئے۔

صدر زرداری کو افتخار چوہدری کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی
ارسلان افتخار کا بحریہ ٹاؤن کے مالک سے کروڑوں روپے کے لین دین کا جب معاملہ سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ چار ماہ تک مختلف سماعتوں کے دوران ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات کو رکوانے کے بعد اسے دو افراد کے مابین لین دین کا معاملہ قرار دے کر ختم کر دیا۔
ارسلان افتخار کے واقعے کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت کے اندر وہی حیثیت رہ گئی جو آخری دنوں میں سجاد علی شاہ کی تھی اور اگر ان کا مدت زیادہ ہوتی تو شاید ان کا حشر بھی سجاد علی شاہ والا ہی ہوتا۔
افتخار چوہدری کو ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ایک فوجی آمر کو نہ کر کے داد تو خوب وصول کی لیکن سپریم کورٹ میں بیٹھ کر جج کی بجائے ایک ایسا آمر بننے کی کوشش کی جس نے عدالت کو دربار میں تبدیل کر دیا۔ افتخار چوہدری نے عام لوگوں کے مقدموں کو حل کرنے کی بجائے ’سیاسی انصاف‘ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔

Corruption se Sharab Tak

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بحال ہونے کے فوراً بعد از خود نوٹس کے قانونی تصور کو یوں استعمال کیا جیسے کوئی جنگجو اپنے پسندیدہ ہتھیار کو استعمال کرتا ہے۔
ان کے اس عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے سنہ 2004 میں سپریم کورٹ کو پورے سال میں ازخود نوٹس کےلیے صرف 450 درخواستیں موصول ہوئیں تھیں لیکن مشرف مخالف وکلا تحریک کے نتیجے میں ان کی بحالی کے دو ہی سال بعد ان درخواستوں کی تعداد 90 ہزار سے زیادہ ہوگئی۔
گویا سوموٹو نہ ہوا عوام کی نظر میں سستے انصاف تک پہنچنے کا ایک سستا اور فوری راستہ ہو گیا۔
آخر یہ ہے سوموٹو یا از خود نوٹس ہے کیا بلا؟
پاکستان کے آئین میں دیگر ممالک کی طرح ایک ایسی شق ہے جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ’انسانی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کسی بھی عوامی سطح کے مسئلے‘ پر از خود نوٹس لے کر فیصلہ دے سکے۔ یعنی اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ کہیں پر انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو عدالت خود ہی اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کئی از خود نوٹس لیے۔ ان میں وزرا کی اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانی سے لے کر شراب کی دو بوتلوں کے معاملات شامل ہیں۔ کہیں لاپتہ افراد کے بنیادی حقِ انصاف کو اجاگر کیا گیا تو کہیں عدالت نے چپل کبابوں کی قیمت کو انسانی حقوق کا معاملہ پایا۔ ظاہر ہے، ہر پالیسی کی طرح انصاف کی فراہمی کے اس لائحۂ عمل کے حامی بھی ہیں اور ناقدین بھی۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی اکتوبر سنہ 2013 کی ایک رپورٹ میں اتنے سارے سو موٹو لینے پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے جن میں ملزمان کی بے گناہی کے مفروضے کو ٹھیس پہنچنا اور حکومتی اداروں کا اپنے اختیارات سے تجاوز شامل ہیں۔
مگر کیا وجہ تھی کہ چیف جسٹس کو یہ لائحہِ عمل اختیار کرنا پڑا؟ اس سوال پر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس رجحان کی وجہ خراب طرزِ حکومت تھا۔ اگر ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں صحیح طریقے سے کام کرتیں، قانون کی حکمرانی ہوتی، آئین کی بالادستی ہوتی تو پھر یہ سب کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اسی لیے سوموٹو اختیارات کا زیادہ استعمال ہوا۔‘
مگر خراب طرز حکومت تو اس ملک میں پہلے بھی تھا۔ دوسری بات یہ کہ کیا انصاف کی فراہمی کا یہ پائیدار طریقہ ہے؟
جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں: ’دیکھیں یہ ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہے جہاں علم حاصل کرنا، تعلیم دینا حکومتوں کی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اگر یہ ترجیح نہیں ہے تو انصاف کے محکمے کی بھی یہی صورت حال ہے اسی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کو کچھ ایسے مسائل پر کام کرنا پڑتا ہے جو کہ ذیلی سطح پر ٹھیک ہو جانے چاہیے تھے۔ ایسا بھی ہوا ہوگا کہ ایسے معاملات کو اہمیت دی گئی جہاں نہیں دینی چاہیے تھی۔‘

پاکستان کے آئین کی شق

پاکستان کے آئین میں دیگر ممالک کی طرح ایک ایسی شق ہے جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ’انسانی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کسی بھی عوامی سطح کے مسئلے‘ پر از خود نوٹس لے کر فیصلہ دے سکے۔ یعنی اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ کہیں پر انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تو عدالت خود ہی اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل بابر ستار کہتے ہیں کہ سوموٹو کا زیادہ استعمال حکومت کی ناکامی تو ہے ہی مگر ملک کے عدالتی نظام کی بھی ناکامی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سوموٹو کا اس قدر استعمال قانون کی فراہمی کا ایک پائیدار طریقہ نہیں ہے: ’سوموٹو کے ساتھ متعدد مسائل ہیں۔ کچھ غیر معمولی معاملات میں تو آپ کو سوموٹو کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ جس کا تعلق ہمارے سول ملٹری روابط سے ہے، جہاں کوئی ذیلی عدالت یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی اور اداروں کی اعلیٰ ترین قیادت کو مسئلے کے حل کے لیے ادارے کے تمام تر اختیارات کا استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے علاوہ اس سے مسائل بھی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ’پری ٹرائل سرٹنٹی‘ یعنی قانونی مستقل مزاجی نہیں رہی یعنی آپ کو نہیں معلوم کہ کس چیز پر سوموٹو لیا جا سکے گا۔ ’آپ کو معلوم نہیں کہاں پر آپ کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہے، ہائی کورٹ میں جانا ہے اور کہاں پر سپریم کورٹ خود اس کا نوٹس لے گی۔‘
کیا سپریم کورٹ کے سوموٹو کے زیادہ استعمال سے ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے وقار میں کمی ہوئی ہے؟
بابر ستار کہتے ہیں ’یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ قانون دانوں کو شاید ایسا لگاتا ہو مگر عام آدمی کے لیے تو وہ ظلم کے خلاف آخری دفاع ہیں۔
’قانون دانوں کو نہ صرف اس کے طرزِ استعمال پر تشویش ہے بلکہ اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ سوموٹو کو بطور ایک حل پیش کیا گیا ہے۔‘
’سوموٹو کوئی حل نہیں ہے۔ اگر لوگ کہیں کہ اتنے برے حالات ہیں تو اب کیا کریں تو یہ تو وہی بات ہوئی کہ برے حالات ہوتے ہیں تو فوج آ جاتی ہے اور ہم نے ماضی میں یہی سیکھا ہے کہ اس سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کہتے ہیں کہ شاید ہم لوگوں کو یہ سمجھا نہیں سکے کہ سوموٹو عوامی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان کے مطابق عوامی توقعات کی وجہ سے عدالت نے مقبول قسم کے کیس سنانا شروع کر دیے جن سے شاید طرزِ حکومت میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے لوگوں کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
چیف جسٹس کے پیشہ ورانہ ورثے کے بارے میں بحث تو شاید کئی سال تک جاری رہے مگر ایسی کوئی بھی بحث دو الفاظ کے بغیر نہ مکمل ہے۔ سوموٹو!

Chalen Ab Adliya ko Theek Kar Len...

اچھا جی افتخار چوہدری سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ویسے پاکستان میں اب تک چوہدری صاحب سمیت جو 20 چیف جسٹس آئے ان میں سے کس کس سے کتنی اور کون کون سی امیدیں پوری ہوئیں؟
یہ ٹھیک ہے کہ چیف صاحب کی سپریم کورٹ نے زیادہ تر ایسے ہائی پروفائل کیسز پر توجہ دی جن سے میڈیائی شہ سرخیاں نکلیں۔ تو کیا یہ کیسز صرف اس لیے چھوڑ دینے چاہییے تھے کہ ججوں کے سات پردوں میں رہنے کی کلاسیکی روایت پر ضرّب نہ لگے؟
ہاں ایک دور تھا جب جج بھی گھونگٹ نکال کے بیٹھتے تھے اور عدالتی اوقاتِ کار کے بعد سماجی لحاظ سے راہبانہ زندگی گزارتے تھے۔ ایسے جج پسند کیے جاتے تھے جو خود نہ بولیں، بس ان کے فیصلے بولیں۔
پر یہ تب کی بات ہے جب ہماری دادیاں اور امیّاں بھی پردہ کرتی تھیں۔ چھوٹے بڑوں کے سامنے بغیر ٹوپی کے نہیں آتے تھے اور حدِ ادب میں سلام تک کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ شادی شدہ بیٹا اپنے باپ کے سامنے اپنے بچے کو گود میں لیتے ہوئے شرم محسوس کرتا تھا۔ ریستوران میں بیٹھنے کو لفنگا پن سمجھا جاتا تھا اور مہمان کو گھر کے بجائے ہوٹل میں کھانا کھلا دو تو وہ ناراض ہوجاتا تھا۔
وقت کے ساتھ سب بدل گیا، حتی کہ لاؤڈ سپیکر کو شیطانی آلہ سمجھ کر دور بھاگنے والا مولوی بھی اوپر نیچے اندر باہر سے بدل گیا۔ مگر خواہش ہماری آج بھی یہی ہے کہ جج کلاسیکی ہی رہے۔ وکٹورین اور ایڈورڈین دور کے جج کی طرح۔۔۔ کیوں جی؟
تو کیا آپ کو آٹھ سال نوماہ اٹھارہ دن چیف جسٹس آف پاکستان رہنے والے جسٹس اے آر کارنیلئیس کے افکار اور فیصلے یاد ہیں؟

میڈل آف فریڈم

افتخار محمد چوہدری بھی انھی ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور ایک آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔ لیکن انھوں نے ایسا کیا کِیا کہ ہارورڈ لا سکول نے انھیں نیلسن منڈیلا اور سول رائٹس کے ایفرو امریکن لیگل ایگل چارلس ہملٹن کے بعد تیسری ایسی شخصیت سمجھا جو میڈل آف فریڈم کی مستحق ٹھہری۔
انھوں نے تو پوری جوڈیشل زندگی ایک کلاسیکی جینٹل مین جج کی گزاری۔ ہوٹل فلیٹیز لاہور کے ایک کمرے میں انتقال ہوا۔
اچھا چیف جسٹں حمود الرحمان تو ضرور یاد ہوں گے؟ وہ تو آپ کی توقعات پر پورے اترے اور انہوں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کی ایکسرے رپورٹ آپ کے حوالے کردی۔ تو کیا آپ بھی ان کی توقعات پر بال برابر بھی پورے اترے؟
اچھا جی افتخار محمد چوہدری بھی انھی ججوں میں شامل تھے جنہوں نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور ایک آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔ لیکن آگے بھی تو بتائیے کہ اسی افتخار چوہدری نے کیا کیا ایسا کِیا کہ ہارورڈ لا سکول نے انھیں نیلسن منڈیلا اور سول رائٹس کے ایفرو امریکن لیگل ایگل چارلس ہملٹن کے بعد تیسری ایسی شخصیت سمجھا جو میڈل آف فریڈم کی مستحق ٹھہری۔
آپ کو جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت تو یاد ہے جس نے مستقبل کے پاکستان میں آمریتوں کا دروازہ کھولا۔ لیکن 1953 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد کی جسٹس منیر کمیشن رپورٹ کیوں یاد نہیں جس پر عمل درآمد ہوتا تو آج پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا ببول شاید تا حدِ نگاہ نظر نہ آتا۔
اسی رپورٹ میں یہ لکھا تھا نا کہ جتنے بھی مکاتبِ فکر کے علما کمیشن کے سامنے شہادت کے لیے پیش ہوئے ان میں سے کوئی بھی اسلامی نظام کی جامع اور متفقہ تشریح نہ دے پایا۔
اچھا یہ بتائیے کہ ایوب خانی آمریت کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے جرات مند جسٹس رستم کیانی کی تقاریر اور تحریریں آپ کو کتنی یاد ہیں۔ کیا ان میں سے ایک بھی تحریر و تقریر اس قابل نہیں کہ اسے تعلیمی نصاب میں ہی ڈال دیا جاتا؟

سوموٹو نوٹس

جی اچھا۔۔۔ افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ سوموٹو نوٹس لیے اور جوڈیشل ایکٹواِزم کا حد سے زیادہ مظاہرہ کیا اور جو کام پارلیمنٹ اور حکومتوں کے کرنے کے تھے ان پر بھی ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔۔۔
ظاہر ہے کہ ایک نارمل ملک اور نارمل سوسائٹی میں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہییے اور ہر ادارے کو اپنی طے شدہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہییے، لیکن کیا واقعی یہ کوئی نارمل ملک اورسوسائٹی ہے؟ پیدائش کے وقت تو یقیناً تھا۔ لڑکپن بھی کم و بیش نارمل ہی گزرا مگر اس کے بعد ؟

’افتخار چوہدری سے پہلے کسی نے اتنا جوڈیشل ایکٹو ازم نہیں دکھایا‘
جہاں فوج ازخود فیصلہ کرلے کہ ملک کے حالات کب سیاستدانوں کے بس سے باہر ہوچکے ہیں۔ جہاں آرمی چیف کو ایک سیاسی حکومت طیارے سے باہر نکلنے سے پہلے پہلے برطرف کردے، جہاں ایک جج یہ کہےکہ ہم نے بھٹو کی سزائے موت اس لیے برقرار رکھی کیونکہ ہم پر ناقابلِ برداشت دباؤ تھا، جہاں ایک چیف منسٹر یہ کہے کہ میں نے لاشیں سڑک پر رکھ کر دھرنا دینے والوں کی نم ناک آنکھوں کے لیے ٹشو پیپرز کا ٹرک بھجوا دیا ہے، جہاں حساس ادارے خود کو ماورائے آئین سمجھیں اور قانون نافذ کرنے کے لیے سب سے موثر ہتھیار لاقانونیت سمجھا جائے، جہاں ووٹوں سے منتخب حکومتیں خون چوس کارٹیلز اور تجارتی مافیاؤں کی فرنٹ کمپنیاں بن جائیں وہاں کون سا آئینی دائرہ اور کیسی طے شدہ حدود؟
دنیا میں جہاں جہاں بھی حکومتیں اپنے قومی و عوامی فرائض تن دہی سے نبھا رہی ہیں وہاں آپ نے کبھی یہ شکوہ سنا ہے کہ عدلیہ اپنی چادر سے پاؤں باہر نکال رہی ہے۔ درست ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے اور قانون کی تشریح عدلیہ کا۔ مگر قانون سازوں کی تعلیمی ڈگریاں اور شہریت بھی تو ٹرانسپیرنٹ ہو ورنہ احتساب اور ٹرانسپیرنیسی سے متعلق قانون سازی کی اپنی کیا اوقات رہ جائے گی؟

جوڈیشل ایکٹو ازم

اچھا جی۔ افتخار چوہدری سے پہلے کسی نے اتنا جوڈیشل ایکٹو ازم نہیں دکھایا۔ کیوں؟ کیا اس لیے کہ حکومتیں گڈ گورننس کے حساب میں اپنے بنیادی فرائض نبھا رہی تھیں یا اس لیے کہ جج یہ سمجھ رہے تھے کہ سانوں کی، خصماں نوں کھان۔۔۔
ہاں بظاہر اتنی جوڈیشل دھواں دھاری کے باوجود انصاف آج بھی بکتا ہے۔ زیریں عدالتوں کا حال وہی ہے جو افتخار چوہدری کے دور سے پہلے تھا۔ چلیں اب وہ بھی چلے گئے۔ اب آنے والے چیف جسٹس صاحبان ہی سوموٹو اور پاپولر کیسز کو زیادہ وقت دینے کے بجائے زیریں عدالتوں پرتوجہ مرکوز کر لیں۔ ویسے کیا کبھی کسی نے سوچا کہ 65 برس میں 20 چیف جسٹس آنے کے باوجود زیریں عدالتوں کا معیار اور گراف گرتا ہی کیوں چلا گیا۔ کیا صرف اعلیٰ عدلیہ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی یا یہ حکومتوں کی ذمہ داری بھی تھی کہ زیریں عدالتوں کی صفائی کے بعد اس میں جتنے اہل، قابل اور ایماندار ججوں کی ضرورت ہے اتنے جج فراہم کرنا اور ان کو اتنی تنخواہ اور مراعات اور سکیورٹی اور کام کے لیے جدید انفراسٹرکچر دینا کہ وہ تیرے میرے کی طرف نہ دیکھیں؟
اگر یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے تو پھر آج تک کوئی بھی حکومت زیریں اور درمیانی عدالتوں کو اپنے اپنے نظریۂ ضرورت کے تحت ’ساڈا بندہ جج بننا چاہیدا سکیم ‘ کے تحت بھرنے سے توبہ کیوں نہیں کر پائی؟

زیریں عدالتوں کا معیار

کیا صرف اعلیٰ عدلیہ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی یا یہ حکومتوں کی ذمہ داری بھی تھی کہ زیریں عدالتوں کی صفائی کے بعد اس میں جتنے اہل، قابل اور ایماندار ججوں کی ضرورت ہے اتنے جج فراہم کرے اور ان کو اتنی تنخواہ اور مراعات اور سکیورٹی اور کام کے لیے جدید انفراسٹرکچر دے کہ وہ تیرے میرے کی طرف نہ دیکھیں۔
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ جن جن ممالک کی حکومتوں نے شہریوں کے بنیادی حقوق اور ضروریات کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا وہاں انسدادِ دہشت گردی کے ایک کے بعد ایک قانون بنانے اور سپیڈی ٹرائل کورٹ کی تعداد بڑھانے اور عام عدالتوں میں بہت زیادہ جج رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
آپ کو ہارورڈ، پرنسٹن، ییل اور آکسفورڈ کی مہنگی تعلیم تو کبھی نہیں تنگ کرتی۔ سوئٹزلینڈ کی سوا ملین ڈالر کی گھڑی اور لندن کے بشپس ایونیو میں ڈھائی ملین پاؤنڈ کا گھر تو فوراً پسند آجاتا ہے۔ لیکن جب وہاں کے عدالتی، سماجی اور سیاسی نظام کی اچھائیاں خریدنے کی بات کی جائے تو آپ فوراً یہ کہہ کر جھڑک دیتے ہیں کہ بادشاہو پاکستان میں بیٹھ کر ترقی یافتہ دنیا کی مثالیں کیوں دے رہے ہیں۔ او ملخ ہور آب و ہوا ہور۔۔۔
پھر بھی آپ چیختے ہیں کہ سومو ٹو ازم اور جوڈیشل ایکٹو ازم دراصل اختیارات غصب کرنے اور عدالتی آمریت قائم کرنے کی کوشش ہے۔
تو کیا افتخار چوہدری کے اثرات اعلیٰ عدلیہ پر کچھ دیر رہیں گے؟ کیا زیریں عدالتوں کی جو ری سٹرکچرنگ اور اصلاحات چوہدری صاحب بھی نہ کرسکے ان کے بعد آنے والے کر پائیں گے؟ جب میں سنہ 2020 تک کی متوقع ریٹائرمنٹ فہرست پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے سپریم کورٹ ایک ایسا ادارہ دکھائی دیتا ہے جسے اب وقت نے اگلے کئی برسوں کے لیے کنوئیر بیلٹ پر رکھ دیا ہے۔ شاید اسی لیے وکیل بھی خوش ہیں، حکومت اور پارلیمنٹ بھی، عسکری ادارے بھی شاداں و فرحاں ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی۔۔۔
موشگافیوں کی چھت تلے رہنے کے عادی، اکثر و بیشتر سانپ کو رسی اور رسی کو سانپ سمجھنے والے سماجوں کو قد آور، آؤٹ آف باکس سوچنے والے یا تیز رفتار لوگ جانے کیوں راس نہیں آتے۔۔۔

Election ki Jaanch Partal & Chairman Nadra

Tariq Malik n Rechecking of votes..

Pakistan- Islam key naam par?

Tuesday, December 10, 2013

Adalat aur Siyasat - Talat Hussain

Waiting for his next Column

کہتے ہیں کامیابی کے بہت سے والدین پیدا ہو جاتے ہیں جب کہ ناکامی ہمیشہ یتیم ہی رہتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گرد گھومنے والی وکلاء تحریک اور اس کے بعد پیدا ہونے والے بڑے بڑے واقعات کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کی آزادی کے معاملے کو اپنے مقاصد کے لیے جی بھر کے استعمال کیا۔ اپنا سر بلند کیا۔ سینہ پُھلا کر جمہوریت کے تمغے خود کو عنایت کیے اور موقعے کی مناسبت سے ’’قدم بڑھائو چیف جسٹس ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کا نعرہ بلند کیا۔ مگر جب آزاد عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے ان تمام معاملات کی نشاندہی کرنا شروع کی جن کا تعلق ایک جابر نظام کے استحصالی گماشتوں کے کرتوتوں سے تھا تو تقریبا ہر کسی نے عدلیہ کی ’’حدود‘‘ متعین کرنے کی بحث کا آغاز کر دیا۔
میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھوکا رویہ اب بھی موجود ہے بلکہ یوں کہیے کہ اپنے عروج پر ہے۔ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے کہ جو چیف جسٹس کے جانے کا انتظار نہ کر رہی ہو۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سب کو عدلیہ کی آزادانہ کارروائیوں سے ایک ایسا بخار ہو گیا ہے جو چیف جسٹس کے اترنے سے ہی اترے گا۔ اگرچہ یہ سب وہی جماعتیں ہیں جو افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھ دوسرے معزول جج صاحبان کے نام سے اپنے دن کا آغاز کرتیں اور ان کی مالا جپتے ہوئے آنکھیں موندتیں تھیں۔ اس وقت سب چیف جسٹس کو چڑھانے میں مصروف تھے اور اب ان کے اترنے کے لیے بے چین ہیں۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک وجہ تو سیاست خود ہے۔ یہاں پر وفاداری کا وہی حال ہے جو ہالی وُڈ میں شادیوں کا ہوتا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ نہیں چلتیں اور پھر ختم ہونے کے بعد خوفناک مقدمات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دوسری وجہ کا تعلق ان توقعات سے ہے جو سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کے بحال ہونے سے منسلک کر لیں تھیں۔ جس کسی نے بھی جنرل مشرف کے اقدامات کے خلاف اور ججز کے حق میں ایک مرتبہ بھی زبان کھولی تھی وہ یہ سمجھنے لگ گیا تھا کہ اس کا ہر الٹا سیدھا عدلیہ کے سامنے صرف اس وجہ سے قابل قبول ہو جانا چاہیے کہ وہ کسی زمانے میں سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر نعرے لگایا کرتا تھا۔ کوئی عدلیہ کے انصاف اور اس کی آزادی کے اثرات کو خود پر لاگو ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ آزاد عدلیہ سیاسی مخالفین کو غلام بنانے میں معاونت بھی کرے۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی قیادت عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو بھی اسی نظر سے دیکھتی ہے جس طرح آزادی صحافت کو۔ ان کے نزدیک اچھا صحافی وہی ہے جو کامیابی کے تمام دعوئوں پر دھمال ڈالے اور پارٹی قیادت کے شادی بینڈ میں زور زور سے ڈھول پیٹے۔ ان کے نزدیک جج وہی اچھا ہے جو ان کا بغل بچہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی اور عسکری حلقوں نے  خود سے آزاد عدلیہ کو مسیحا بنانے کا کام بھی جاری رکھا۔ کون سا ایسا معاملہ ہے جو حکومت یا حزب اختلاف عدالت کے سامنے لے کر نہیں گئی۔ عدالت کے سو موٹو پر تو بڑا شور مچا یا جاتا ہے مگر کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اُن کاموں کے لیے بھی عدالت کا دروزاہ کھٹکھٹایا گیا جس کو انھوں نے خود حل کرنا تھا۔ انتخابات کے لیے ووٹرز لسٹیں ہوں یا ریاست کے خلاف ہونے والی سازشیں (میمو گیٹ) ہر مسئلے پر فیصلے کے لیے عدالت کا رُخ کیا جاتا رہا۔ اس وقت کسی نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس عادت کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ویسے بھی اگر ہر ادارے کی کارکردگی غیر معیاری ہے، انتظامیہ نکمی اور احتساب کے عمل سے باہر ہے۔ طاقتور فرعون اور کمزور، مطیع و مجبور و بے کس ہے تو کسی نہ کسی ادارے نے تو ذمے داری اٹھانی ہے۔ کسی نے تو چارج لینا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدالت یا ججز محترم با اختیار یقینا ہیں مگر ان کو بھی آئین کے پیرائے میں رہ کر اپنا کام کرنا ہے مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک میں کروڑوں باسی ایسے ہیں جن کے شب و روز اس پستی میں گزرتے ہیں جہاں پر قانون نوکر اور آئینی معاملات بے وقعت ہیں۔ ان کو بحث مباحثہ نہیں تکلیف میں فوری تخفیف چاہیے۔
ان تک پہنچنے کا راستہ صرف براہ راست عمل ہے۔ ان کے لیے جمہوری اداروں کے ارتقائی مراحل کا مطلب امید کی شمع کا گل ہونا ہے۔ وہ انتظار نہیں کر سکتے۔ اگر ان کا ہاتھ سیاست دان نہیں پکڑے گا تو یہ کام جج کو کرنا پڑے گا۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے آپ کو زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف یہ سوچ لیں کہ کیا آپ کو پاکستان میں بد عنوانی کی گہری جڑوں کے بارے میں پتہ چلتا، اگر یہ معاملات عدلیہ نہ اٹھاتی؟ کیا آپ یہ جان پاتے کہ ڈاکو کیسے کیسے روپ اختیار کر کے اس قوم کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر تباہ کرتے ہیں؟ کیا آپ کو گمشدہ افراد کے بارے میں معلومات ملتی؟ کراچی کے قاتلوں کا پتہ چلتا؟ ان درجنوں اسکینڈلز پر سے پردہ اٹھتا جو اب ہر کسی کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ یقینا نہیں۔ یہ سب کچھ عدلیہ کی متحرک پالیسی کے  ذریعے ممکن ہوا۔ اگر جج اس گند کے ڈرم سے ڈھکن نہ اٹھاتے تو ہم بھی احمقوں کی اس جنت میں بیٹھے ہوتے جو طاقتور شداد ہمیں گمراہ کرنے کے لیے بناتے ہیں اور پھر ہمیں یہ بتلاتے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘ مگر کیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تحت چلنے والے عدالتی نظام نے سب کچھ صحیح کیا؟ اس پر اگلا کالم تحریر ہو گا۔

Future of Tehreek e Insaf -- Aam Aadmi Party

انٹرنیٹ کے پاکستان پہنچنے سے 24/7 چینلز کے فروغ تک والے 20 سے زیادہ برسوںمیں ہمارا معاشرہ یقینی طور پر Global Village کا ایک توانا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود میں اکثر اپنے آج کے صحافیوں کا 1930 اور 1940کی دہائیوں سے تقابل کرتا رہتا ہوں۔ ذرائع ابلاغ ان دنوں صرف اخبارات اور رسائل تک محدود تھے۔ مگر آپ مولانا آزاد اور محمد علی جوہر جیسے نابغوں کے صرف اخبارات کے لیے لکھے مضامین اور اداریے پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی معاملات کے ساتھ ہی ساتھ انھیں عالمی سطح پر حاوی سیاسی اور ثقافتی رویوں کے بارے میں بھی حیران کن حد تک آگہی حاصل تھی۔ اخبارات تو حالاتِ حاضرہ کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر اقبالؔ جیسے بے پناہ شاعر بھی ہمیں کارل مارکس، لینن اور مسولینی وغیرہ کا بھرپور انداز میں ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔
میں نے کئی برس پہلے کتابوں کی ایک دکان سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب یوں ہی خرید لی تھی۔ اس کتاب میں جمعیت العلمائے ہند کے سالانہ جلسوں میں کی گئی صدارتی تقاریر اور بڑی سوچ بچار کے بعد منظور شدہ قراردادوں کو جمع کر دیا گیا تھا۔ اب بھی مہینے میں کئی بار میں وہ کتاب اٹھا لیتا ہوں اور اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ بلقان جنگ کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کا ہمارے ’’مولوی‘‘ حضرات کو کتنا گہرا علم تھا اور وہ ان واقعات کا انتہائی مدلل تجزیہ بھی کیا کرتے تھے۔ آپ اس تجزیے سے اتفاق یا اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں۔ مگر یہ اعتراف کرنے پر مجبور پائے جائیں گے کہ مدرسوں سے نکلے یہ ’’مولوی‘‘ کہنہ مشق سفارت کاروں کی طرح عالمی امور پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ ان کے بارے میں اپنی ٹھوس رائے بھی رکھتے تھے۔
میری نسل کے صحافیوں میں یہ رحجان نظر نہیں آتا۔ بھارت، افغانستان اور ایران ہمارے بہت اہم ہمسائے ہیں۔ ان تینوں ملکوں کے بارے میں ایسے کسی پاکستانی صحافی کا میں تو نام نہیں جانتا جو ان ممالک میں طویل قیام یا بار ہا دوروں کے بعد اپنی ایک رائے رکھتا ہو۔ ان ممالک کے بارے میں ہمارا زیادہ تر ’’علم‘‘ ان امریکی اور یورپی صحافیوں کی نگارشات پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنی رپورٹنگ کی صلاحیتوں اور تجربات کو بالآخر کچھ کتابیں لکھنے کے لیے استعمال کیا۔ 1970 کی دہائی سے ’’چین اپنا یار ہے‘‘ کے دعوے ہو رہے ہیں۔ میں ایسے کسی بھی کالم نگار کا نام نہیں جانتا جو چینی زبان و ادب سے پوری طرح واقف ہو اور چین کے لوگوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد ہمیں اس ملک کے بارے میں ایسی باتیں بتاتا ہو جو امریکی یا یورپی لوگوں کی نظروں سے مختلف وجوہات کی بناء پر چھپی رہتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھارت کے دارالحکومت نئی دلی کی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان کے نتیجے میں 15 سال تک اس شہر کی وزیر اعلیٰ رہنے والی شیلا ڈکشٹ کو چند ہی ماہ پہلے قائم ہونے والی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے بانی اُروند کیجرال نے ووٹوں کی ایک حیران کن اکثریت کے ساتھ شکست دے دی۔ بات صرف شیلا تک محدود نہیں رہی۔ بھارت کی حکمران کانگریسی جماعت کا دلی میں تقریباََ صفایا ہو گیا ہے۔ دلی کی ہمسایہ راجستھان میں بھی عبرت ناک شکست اس جماعت کا مقدر بنی۔ مدھیہ پردیش اور دوسرے صوبوں کے انتخابات اب واضح طور پر نشاندہی کر رہے ہیں کہ شمال مغربی بھارت کی نام نہادCow Belt یعنی ہندی بولنے والے علاقے ذہنی طور پر گجرات کے نریندر مودی اور اس کی BJP کو بھارت کا حکمران دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ نریندر مودی کو ہم محض ایک ہندو انتہاء پسند کے طور پر جانتے ہیں۔ اسے بڑی جائز وجوہات کی بناء پر اپنے صوبے میں ہندو بالادستی قائم کرنے کے جنون کا نمایندہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمیںیہ جستجو تو کرنا چاہیے کہ بھارت کے پڑھے لکھے لوگوں میں اپنے خلاف موجود اتنی نفرت کے باوجود نریندر مودی بھارتی عوام کی اکثریت کو اپنی طرف کیوں راغب کر رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس کی جانی پہچانی ’’مسلم دشمنی‘‘ کے علاوہ دوسرے اسباب کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ مگر اس کے لیے وقت چاہیے اور سنجیدہ تحقیق اور ان دونوں چیزوں سے ہم بحیثیت مجموعی محروم پائے جاتے ہیں۔
نریندر مودی کو فی الوقت نظرانداز کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کا حیران کن عروج ہمارے ہاں کی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ اس جماعت کا بانی اُروند ایک چھوٹے سرکاری ملازم کا بیٹا تھا جو بڑی محنت اور دوبار فیل ہو جانے کے بعد بھارت کی سول سروس کے لیے منتخب ہوا۔ ملازمت اس کو ٹیکس کے محکمے میں ملی۔ وہاں کام کرتے ہوئے اسے بھارت کی اشرافیہ میں پھیلی کرپشن کا بھرپور احساس ہوا۔ اپنے اس تجربے کی بدولت اس نے اس تحریک کا پورا ساتھ دیا جو Right to informationکے نام پر سرکاری معاملات کی مکمل شفافیت کا تقاضہ کرتی تھی۔ RTI باقاعدہ قانون بن گیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے استعمال کی بدولت لوگوں کو حقائق کا پتہ تو چل جاتا ہے۔ گھپلوں کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے مگر بدعنوانی کے اصل ذمے داروں کے احتساب کا حق پھر بھی نہیں ملتا۔ احتساب کے اسی حق کے حصول کے نام پر اس نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بنائی۔ دلی کے صحافیوں، کالم نگاروں اور وہاں کے جید سیاست دانوں نے اُروند کو محض ایک مسخرا سمجھا۔
کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دلی کی اسمبلی کے انتخابات کے لیے جب اس کی پارٹی نے تمام نشستوں کے لیے امیدوار بھی چن لیے تو اس جماعت پر غیر ملکی امداد سے ایک NGO کو سیاسی جماعت بنانے کے الزامات بھی لگے۔ سیاسی دائو پیچ اور ’’فراست و حکمت‘‘ کے بارے میں لاعلم اور Outsider قرار دیے جانے والا اُروند ’’مغرور‘‘ بھی ٹھہرایا گیا۔ بالآخر مگر اس نے کانگریس کی چھٹی کروا دی۔ دلی کے انتخابات کے بعد BJP وہاں کی اکثریتی جماعت کے طور پر ضرور اُبھری ہے مگر اس کے پاس دلی کی اسمبلی میں واضح اکثریت میسر نہیں۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مگر یہ پارٹی کہہ رہی ہے کہ چونکہ اس کو واضح اکثریت نہیں ملی اس لیے وہ حکومت سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو گی۔ وہ اس بات پر بضد رہی تو دلی میں گورنر راج لگاکر بالآخر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ جب ہمیں یہ سمجھ آ سکے گی کہ ’’تبدیلی‘‘ چاہنے والے ’’نظام کہنہ‘‘ کو شکست تو دے دیتے ہیں مگر اس کے متبادل کسی سیاسی نظام کی تعمیر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس سوال کا جواب مل گیا تو اپنی تحریک انصاف کا مستقبل بھی ہماری سمجھ میں آ جائے گا۔

Noon League ne Ek aur Waada Poora kar diya

" style="text-align: left;" trbidi="on">

Real Inteqam from Awam by Govt

Bijli ka Bill

Zardari --- Reply to Shaheen Sehbai by Naji

Chachay Naji ka ghussay mai Shaheen Sehbai ko jawab...
ign: left;" trbidi="on">

Geo Patwario

Patwari nizam ki tabdeeli...

Deen pe Chal kyu nai saktey

Logical ......

Siyase Scene Summarised

Summary by Hasan Nisar

Sunday, December 8, 2013

Iftikhar Chaudry-- Urooj o Zawal

Iftikhar Chaudry--- Urooj o Zawal ki Kahani..
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس ہفتے عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی حیثیت سے ایک غیر معمولی اور طویل اننگز کھیلنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگلے تین چار دنوں میں آپ کو اُن کے حوالے سے خوشامد کے ٹوکرے بھی نظر آئیں گے اور کیچڑ اچھالنے والے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان میں چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے تو بہت ہیں۔ لیکن ایک جدت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پوجا پاٹ سورج کے مکمل غروب ہونے تک جاری رکھی جاتی ہے۔ دل میں حسد اور بغض رکھنے والے بہرحال غروب آفتاب کا انتظار نہیں کرتے اور اہم عہدوں پر فائز شخصیات جوں جوں اپنے عہدے کے اختتام کی طرف جانے لگتی ہیں توں توں لعن طعن کرنے والوں کی بہادری میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر یہ ضروری ہے کہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھے جائیں تا کہ مبالغہ آمیز تجزیوں میں کہیں حقائق چھپ نہ جائیں۔
میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زوال اور عروج کی ابتداء کو میں نے اپنے چند اور ساتھیوں کی طرح انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ اگرچہ آج کل وکلاء کی تاریخ ساز تحریک کے جنم میں حصہ ڈالنے والے دعویدار بہت ہیں۔ مگر میں آپ کو ایک عینی شاہد اور زمینی حقائق کے قریب رہ کر صحافی کی حیثیت سے بتا سکتا ہوں کہ شروع میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو وکلاء کے سوا کسی اور کا سہارا میسر نہیں تھا۔ اور یہ وکلاء بھی عام وکلاء تھے۔ اس تحریک پر ’’خواص‘‘ نے بعد میں قبضہ کیا۔ چوہدری اعتزاز احسن نے گاڑی چلا کر تمام کا تمام میڈیا اپنی طرف متوجہ تو کرلیا۔ لیکن اس تحریک میں جان ڈالنے والوں میں موجودہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، علی احمد کرد اور اطہر من اللہ سب سے نمایاں تھے۔ اِن کے علاوہ اصل ہراول دستہ وہ ہزاروں وکلاء تھے جن کی کبھی تصویر نہیں بنی۔ اور نہ ہی اُن کا نام تاج پوشی کی کسی رسم میںبتایا گیا۔
ذرایع ابلاغ کا قصہ بھی آپ کو بتا دوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بزور طاقت اتارے جانے کے بعد جب پہلی مرتبہ راولپنڈی بار گئے تو ٹی کیمرے صرف چند ہی تھے۔ میں اپنے کیمرے سے خود فلم بندی کر رہا تھا۔ استقبال بڑا جاندار تھا مگر جب چیف جسٹس کی تقریر سنوانے کا موقعہ آیا تو جن چینلز کے پاس لائیو تصویریں دکھانے کی سہولت موجود تھی انھوں نے کیمرے بند کر دیے۔ چیف جسٹس کا راولپنڈی بار سے پہلا خطاب ٹیلی فون کے ذریعے سنوایا گیا۔ آج کل کھٹا کھٹ تصویریں بنوانے والے اور چیف جسٹس کی تعریفوں کے پل باندھنے والے تجزیہ نگار جنرل مشرف کے رعب میں دبکے بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس کی خبر صرف وکلاء کے احتجاج کے حوالے سے بن رہی تھی۔ اِس سفر کا اگلا اسٹیشن سکھر بار تھی۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ تین چار صحافیوں اور مقامی نمایندگان کے سوا چیف جسٹس کے استقبال اور احتجاج کو فلم بند کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ تمام ترصلاحیت رکھنے کے باوجود لائیو کوریج نہیں کی گئی۔ وہ خطاب بھی ٹیلی فون پر سنوایا گیا تھا۔ بلکہ ایک موقعہ تو ایسا آیا جب چیف جسٹس کو اپنا خطاب پانچ، سات منٹ کی تاخیر سے شروع کرنا پڑا کیونکہ اُس وقت سکھر بار کے پنڈال میں ٹیلی فون کے سگنلز صحیح نہیں آ رہے تھے۔
حیدرآباد میں حالات تھوڑے تبدیل ہوئے۔ جب مختلف جج صاحبان نے استعفوں کے ذریعے وکلاء حضرات کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر اصل تبدیلی پشاور کے جلسے کے بعد آئی تھی۔ وہاں پر بھی آج کل کے جید لکھاری اور عدلیہ کی آزادی پر بات کر کے نہ تھکنے والے مجاہد غیر حاضر تھے۔ پنڈال میں وہی صحافی موجود تھے جو پچھلے کئی ہفتوں سے چیف جسٹس کے گرد بنتی ہوئی اس اہم خبر کو مسلسل کور کر رہے تھے۔ پشاور میں جنرل پرویز مشرف کے نظام کو گرانے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ خیبر پختو نخوا کے اندر انتہائی جوش و خروش سے اُس اصول کی طرفداری کی گئی تھی جس کو پامال کرنے میں جنرل مشرف نے اپنی پوری قوت لگا دی تھی اور وہ اصول یہ تھا کہ آئین کا دائرہ کار کسی طور بھی نہیں توڑا جا سکتا۔کسی ایک شخص کو دوسرے شخص پر صرف  اتنی ہی فوقیت حاصل ہے جتنی آئین اجازت دیتا ہے۔ آنے والے ماہ و سال میں یہ اصول جمہوریت کی بنیادی اینٹ بن گیا۔ جس کے نتیجے میں مسلسل الیکشن اور سویلین حکومت کا دوسری سویلین حکومت کو اختیار منتقل کرنے کی روایت جڑ پکڑ گئی۔
جس دن پشاور میں چیف جسٹس نے خطاب کرنا تھا اُس روز جنرل مشرف نے اپنے کیمپ آفس میں مدیران، اینکرز اور صحافیوں کے ایک گروپ کو مدعو کیا۔ اس نشست میں درجنوں ایسے لوگ موجود تھے جو چیف جسٹس اور وکلاء تحریک کو فنا کرنے کی حیرت انگیز تجاویز دے رہے تھے۔ جنرل صاحب کو خوش کرنے کے لیے یہ پیشین گوئی بھی کر رہے تھے کہ اس تحریک میں جان نہیں ہے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ آج جب میں ان میں سے بہت سوں کو جنرل مشرف کے خلاف بات کرتے ہوئے اور چیف جسٹس کو فرشتۂ رحمت قرار دیتے ہوئے سنتا ہوں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہو ں کہ منافقت سے بڑا گناہ کوئی اور نہیں ہے۔ لیکن چونکہ منافقت ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے لہذا ہمارے نظام میں اِس کو زوال نہیں۔ ویسے بھی ٹیلی ویژن نے قومی یادداشت کو پانچ منٹ تک محدود کر دیا ہے۔ لہذا کل کے جھوٹوں کے آج کے سچائی کے دعوے کسی اعتراض یا سرزنش کے بغیر قبول کر لیے جاتے ہیں۔ وکلاء کی تحریک میں سیاسی جماعتوں کا کیا کردار تھا اور بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس تاریخ ساز موقعے کو کیسے استعمال کیا یہ اگلے کالم کا موضوع ہو۔

Nelson Mandela Exposed

Bangkok k Sholay by Klasra

Rauf Klasra