Saturday, March 8, 2014

Kafir by Gul Nokhez Akhtar

Kafir ...

Friday, March 7, 2014

Qissa Aik Jungle ka by Talat Hussain

ایک جنگل کا قصہ اور ہماری حالت زار


www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12
یہ قصہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے مگر یہاں حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ ہر مرتبہ دہرانے کے باوجود بھی یہ نیا محسوس ہوتا ہے۔ اس مرتبہ چند تخلیقی اضافوں کے ساتھ اس کو اپنی صورت حال کے حوالے سے مزید مفصل بنایا گیا ہے، پیغام بڑا واضح ہے مگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو تحریری کمزوری پر ذمے داری ڈال د یجئے گا۔ اپنی کوتاہی ہر گز نہ سمجھئے گا۔ ہماری حسین روایت یہی ہے کہ غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے ۔
یہ قصہ ہے ایک چڑیا اور ایک چڑے کا جو شادی کے بعد دنیا گھومے اور پھر واپس اپنے وطن لوٹے ۔ یہاں کی تصویر نا قابل یقین تھی، باغات اجڑ گئے تھے، پھل سوکھ گئے تھے۔ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے زہر اگل رہے تھے۔ رنگین شاموں پر موت زدہ فضا چھائی ہوئی تھی۔ بچے کھچے جانور اور پرندے حشرات الارض کی طرح کونوں کھدروں میں منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ کوئی بربادی سی بربادی تھی۔ ان دونوں کو اپنی شادی بھول گئی اور یہ مارے مارے ہر طرف پھرنے لگے تا کہ یہ جان پائیں کہ ان کے ملک میں کیا ایسی کوئی وباء آئی کہ جس نے زندگی چھین لی۔ ہر کوئی سچ بولنے سے کترا رہا تھا۔ ایک سوکھی شاخ پر بیٹھے ہوئے الو نے اس جوڑے کے اضطراب کو جان لیا ۔ آسمان پر دو چکر لگانے کے بعد نیچے آیا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ میں تمہارا عذاب سمجھ گیا ہوں ، وضاحت میرے پاس موجود ہے کچھ دیر میں بیان کر دوں گا۔ لیکن تم دونوں کو کچھ وقت میرے ساتھ گزارنا ہو گا ‘‘۔ چڑے نے سجی سجائی چڑیا سے اجازت طلب کی۔ اور اس کے بعد دونوں الو کے ہمراہ ادھر ادھر بے مقصد گھومنے لگے۔ الو ان کو گھما کر بازار لے گیا جہاں پر چھوٹے چھوٹے سروں والے ایسے جانور موجود تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے تھے۔ ان کی موجودگی میں الو نے چڑے کی پشت پر ایک پنجہ رسید کیا اور چڑیا کو اپنے پر کے نیچے دبا لیا۔
پیشتر اس کے کہ چڑا اس ہزیمت پر تلملاتا، الو نے ببانگ دہل بیان جاری کر دیا، جس نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ۔ ’’یہ چڑیا میری بیوی ہے یہ چڑا اس کو لے اڑا تھا آج میں نے آپ سب کے سامنے اس کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ تمام بازار نے اس کی گواہی دی اور چڑے پر لعن طعن کی بارش کر دی۔ تمام تر اخلاقی قوت اور عزم کے باوجود چڑے کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہجوم پر غالب آ جاتا وہ منتوں پر اتر آیا، الو کے پاؤں پڑ گیا، اس سے معافی طلب کی اور کہا کہ اس کی دلہن جو اس کی عزت تھی واپس کر دے‘ وہ دوبارہ اس بد نصیب جگہ کا رخ نہیں کرے گا۔ الو نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا کہ چڑے کی طرح وہ بھی انصاف کا طلب گار ہے۔ باہمی فیصلہ کرنے کے بجائے اس مقدمے کو عالی مرتب بادشاہ جنگل عزت ماب ببر شیر کے پاس لیے چلتے ہیں۔ وہ ہم سب کا حکمران ہے۔ اس کے پاس قدرت بھی ہے اور طاقت بھی۔ اس سے بڑھ کہ عقل مند مشیروں کا پورا قبیلہ ہے۔ جو اپنی دانش مندی سے بادشاہ سلامت کی انصاف پسندی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ چڑے نے پہلے احتجاج کیا کہ یہ مقدمہ ہے ہی نہیں معاملہ واضح ہے، الو غاصب اور وہ خود مظلوم ہے۔ مگر حالات کی سنگینی جانتے ہوئے الو کی بات مان کر دربارکی طرف روانہ ہو گئے۔
وہاں پر اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ ببر شیر محترم تخت پر براجمان تھا۔ دونوں کی بپتا سننے کے بعد ایک گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ جنگل کے کیلنڈر کے مطابق چھ ماہ سوچتا ہی رہا۔ اسی دوران تمام درباری اور مشیران ہاتھ باندھے خود بھی مراقبے میں موجود رہے۔ چھ ماہ بعد یک دم ایک جھر جھری لیتے ہوئے ببر شیر نے نظر اٹھا لی اور کہا کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے اس پر دو کمیٹیاں بننی چاہئیں۔ تمام درباریوں نے ببرشیر کی فراست کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔ اس تباہ حال خطے میں خوشی کے یہ مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیٹیاں بننے کے بعد تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ممبران حد سے زیادہ متحرک ہو گئے ۔ ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک بند کمروں میںلمبی نشستیں کرنے کے بعد وہ ببر شیر کے محل سے نمودار ہوتے اور روزانہ کی تحقیق کے نتائج بیان کرتے۔ ہد ہد ان کے پیغامات کو اپنے سر اور چونچ کی نوکوں کو روشنائی میں ڈبوتے ہوئے تحریر ترتیب دیتے جو تمام جنگل میں پھیلا دی جاتی۔ اس انتظام کی وجہ سے کیا اونٹ اور کیا چیونٹی سب چڑے اور الو کے مقدمے میں گہری دلچسپی رکھنے لگے۔ ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کل کمیٹیاں کیا کریں گی اس مسئلے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کئی ہفتے اسی شش و پنج میں گزر گئے۔ خدا خدا کر کے کیمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کیا۔ بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کیں۔ ان گزارشات اور تحقیقاتی نتائج کو پڑھنے کے بعد بادشاہ سلامت نے فیصلہ صادر کیا کہ اس معاملے پر انتہائی سوچ و بچار کے بعد اور تفصیل میں جاننے کے بعد انھوں نے ایک اور کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بیان سنتے ہی تمام درباری خوشی سے ناچنے لگے۔
ہد ہدوں نے پھر سے لمبی لمبی تحریریں لکھیں اور عالی مرتب کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے ہر طرف منادی کرا دی کہ انصاف ہو تو ایسا ہو ورنہ نہ ہو۔ چڑا اور چڑیا ایک اور کمیٹی کا سنتے ہی چکرا کر زمین پر گر گئے۔ الو کا منہ خوشی سے پھول کر مزید بڑا ہو گیا مگر چونکہ وہ اپنے دل میں ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے بادشاہ سلامت کے سامنے دربار سے چند لمحے کی غیر حاضری کی اجازت طلب کی اور چڑیا اور چڑے کے ہاتھ پکڑ کر خوبصورت محل سے باہر اجاڑ اور بیابان سر زمین کے بیچ میں چلا گیا۔ چڑے کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ چڑیا نیم بے ہوش تھی الو نے دونوں کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور ان سے یوں مخاطب ہوا کہ میں نے ’’تم دونوں کی خواہش کو اپنے طریقے سے پورا کیا ہے۔ تم اس سوال کے جواب کے لیے ہر طرف مارے مارے پھر رہے تھے کہ تمہارے وطن میں پھیلی ہوئی ابتری کی کیا وجہ ہے۔ کوئی تمہیں خونخوار ہمسائیوں کا قصہ سناتا، کوئی قدرت کے امتحان کا ذکر کرتا، اور کوئی تمہارے آباؤ اجداد کی غلطیاں گنواتا تھا۔
کوئی تمہیں مورد الزام ٹھہراتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ تم نے اس کے جگہ کے حالات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوتے تو آج مسلسل ماتم نہ دیکھنے کو ملتا۔ مگر تم دونوں اس وضاحتوں سے مطمئن نہیں لگ رہے تھے اور سچ کی تلاش میں تھے۔ اسی جستجو کو دیکھتے ہوئے میں تمہیں سچ تک لے گیا۔ تم نے بادشاہ سلامت کی دانش مندی کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے مشیران کی حکمت عملی کی گہرائی کا اندازہ کر لیا۔ بینائی سے عاری ہد ہدوں کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا۔ غرض یہ کہ تم نے جان لیا کہ یہاں پر فیصلے کیسے ہوتے ہیں اور کون کرتا ہے۔ اس حسین سر زمین کے خوابوں کو عذابوں میں تبدیل کرنے والے یہاں کے حکمران ہیں۔ طول و عرض میں پھیلی ہوئی نحوست اور بیماری ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو یہ سب کرتے ہیں۔ اور پھر جو یہ کرتے ہیں مگر جس کے نتائج ہم سب بھگتتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر چڑا الو کی عقل مندی کا معتر ف ہو گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کر کے چڑیا کے ساتھ اڑ گیا کہ ان کے ہاں پہلا بچہ ہوا تو اس کا نام الو کا پٹھا رکھا جائے گا ۔

Mitt jaye gi Makhlooq to Insaf karo gai by Haroon Rasheed

Miyaan saab jag jao...