Saturday, May 10, 2014

Imran Khan - 1 Year Performance by Aamir Khakwani

IK and Govt

Thursday, May 8, 2014

Faisla Halat Karen gai by Javed Ch

فیصلہ حالات کریں گے


میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا‘ میرے زیادہ تر دوستوں کا خیال تھاآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا اس لانگ مارچ کے پیچھے ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور چیف جسٹس بھی اس سازش کا حصہ ہیں‘ یہ تمام لوگ مل کر میاں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن مجھے اس سازشی تھیوری سے اختلاف تھا‘ میں جانتا تھا چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر چکے ہیں‘ چوہدری صاحب اور میاں شہباز شریف کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ کئی خفیہ اور ظاہری ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں تمام معاملات طے پا گئے۔
صدر آصف علی زرداری بھی اقتدار جمہوری ہاتھوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی جمہوریت کے خوفناک سپورٹر ہیں‘ یہ دعویٰ کر چکے ہیں ’’ میں پاکستان میں جمہوریت کا آخری مخالف ہوں گا‘‘ چنانچہ میرا خیال تھا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائیٹ ہے‘ علامہ صاحب اپنے مذہبی اور روحانی حلقے میں بہت پاپولر ہیں‘ لوگ ان کے لیے مال اور جان تک قربان کردیتے ہیں چنانچہ یہ نظام کو صرف اور صرف اپنی مقبولیت اور طاقت دکھانے کے لیے میدان میں اترے ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی نہیں مگر اس وقت کسی دانشور نے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم بھی شروع میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔
یہ جماعتیں بھی علامہ صاحب کو فوج کا گھوڑا سمجھ کر ان کی طرف محبت  سے دیکھنے لگیں لیکن جب تینوں جماعتوں کو کسی طرف سے ٹیلی فون نہ آیا تو یہ اسپرنگ کی طرح واپس چلی گئیں اور علامہ صاحب لانگ مارچ کے کارزار میں اکیلے رہ گئے‘ یہ 13 جنوری کو اسلام آباد پہنچے ‘ ان کے کارکن سخت سردی میں 17 جنوری تک بلیو ایریا میں بیٹھے رہے‘ اس دوران سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے چند گھنٹوں کے لیے یہ غلط فہمی ضرور پھیلا دی کہ اسٹیبلشمنٹ علامہ صاحب کے ساتھ کھڑی ہے مگر اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے خود ہی یہ تاثر زائل کر دیا‘ علامہ صاحب 17 جنوری کو ایک جعلی معاہدہ لے کر واپس چلے گئے اور یوں یہ لانگ مارچ ختم ہوگیا۔
علامہ صاحب کے بقول وہ لانگ مارچ’’ میری تحریک کی اذان تھا‘ میں نے اب11 مئی کو عوام کو اقامت کی دعوت دے دی ہے‘‘ 11 مئی کو علامہ صاحب کی اقامت شروع ہوگی مگر اس بار عمران خان بھی تقریباً ان کے ساتھ ہیں‘ علامہ طاہر القادری اورعمران خان دونوں الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں مگر دونوں کا احتجاج کا دن اور مقصد ایک ہے‘ یہ دونوں نظام بدلنا چاہتے ہیں‘ سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار اس بار بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی 11 مئی کی ریلیوں کے پیچھے کھڑی ہے‘ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ فوج علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں پر اعتبار نہیں کرے گی۔
علامہ طاہر القادری عوامی انقلاب لانا چاہتے ہیں جب کہ عمران خان ملک کے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے کروانا چاہتے ہیں اور یہ دو خواہشات اسٹیبلشمنٹ کے مائینڈ سیٹ کے خلاف ہیں لہٰذا فوج کبھی اپنے پائوں کاٹنے کے لیے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے ہاتھ میں کلہاڑا نہیں دے گی لیکن اب سوال یہ ہے‘ عمران خان نے فوج اور آئی ایس آئی کا پرچم اٹھا کر اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر کیوں لگا لیا اور علامہ طاہر القادری بھی عین اس وقت ریلی کیوں نکال رہے ہیں جب فوج‘ جیو اور حکومت تینوں آمنے سامنے کھڑے ہیں‘ اس کا واحد جواب ٹائمنگ ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے ایشو اور خواجگان کے گرم بیانات کی وجہ سے فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات تھے‘ حامد میر پر حملے کے بعد جیو نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی‘ اس کوشش نے فوج اور جیو کے درمیان بھی اختلافات پیدا کر دیے۔
سہ فریقی لڑائی شروع ہوئی اور اس لڑائی نے ملک میں بحران پیدا کر دیا ‘ علامہ اور عمران خان نے اس بحران کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کا خیال ہے یہ ان جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کر لیں گے لیکن میرا نہیں خیال فوج عمران خان یا مولانا کو موقع دے گی چنانچہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی‘ میاں نواز شریف اپنی تمام تر ناقص پالیسیوں اور بے لچک رویوں کے باوجود سیاسی لحاظ سے مضبوط ہیں‘ ان کی گیارہ ماہ کی پرفارمنس بالخصوص اسحاق ڈار کی معاشی کامیابیاں قابل تعریف ہیں‘ ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے لیکن عابد شیر علی کی پرفارمنس بری نہیں۔
احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی کی سمت بھی ٹھیک ہے جب کہ ہم لاکھ انکار کریں مگر یہ حقیقت ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کی حالت بدل دی ہے‘ چھ سال پرانے پنجاب اور آج کے پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے چنانچہ صرف ریلیوں کی مدد سے میاں نواز شریف کی حکومت گرانا آسان نہیں ہوگا‘ ہاں البتہ اگر امریکا اور اس کے یورپی اتحادی چاہیں اور فوج کے ساتھ میاں نواز شریف کے اختلافات انتہا کو چھو لیں یا جیو کا ایشو مزید گھمبیر ہو جائے تو پھر تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں پیالی کا یہ طوفان 11 مئی کی رات ختم ہو جائے گا۔
ہم اب فوج کی طرف آتے ہیں‘ہماری فوج اپنے سابق اور موجودہ چیفس کے معاملے میں بہت حساس ہے‘ یہ چیفس کے انتقال کے بعد بھی انھیں سیکیورٹی دیتی ہے اور ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی‘ فوج اپنے چیفس کے بارے میں کتنی حساس ہے آپ اس سلسلے میں ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں شہید ہو گئے‘ غلام اسحاق خان اس وقت سینیٹ کے چیئرمین اور جنرل اسلم بیگ سینئر ترین جرنیل تھے‘ غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جب کہ جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن گئے۔
غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ دونوں محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اکٹھا کیا گیا‘ آئی جے آئی بنائی گئی‘ آئی ایس آئی کو بے نظیر بھٹو کو ہرانے کا ٹاسک دیا گیا‘ 14 کروڑ روپے کی رقم ریلیز ہوئی‘ ریاستی طاقت استعمال ہوئی‘ 16 نومبر 1988ء کو الیکشن ہوئے مگر نتائج توقع کے برعکس نکلے‘ آئی جے آئی صرف 56 نشستیں حاصل کر سکی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 94 ایم این ایز تھے‘40 ارکان آزاد تھے‘ نتیجہ نکل آیامگراسٹیبلشمنٹ نے ہمت نہ ہاری‘ جنرل رفاقت اس وقت صدر کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
جنرل رفاقت کو آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے اور پی پی پی کو توڑنے کا ٹاسک دیا گیا‘ جنرل رفاقت کے پاس صرف 15 دن تھے‘ دس دن بعد میٹنگ ہوئی‘ صدر کے سامنے ساری پکچر رکھ دی گئی‘ صدر خاموشی سے سنتے رہے‘اٹھے‘ واش روم میں گئے‘ منہ دھویا اور باہر آکر اعلان کر دیا ’’ہم آئی جے آئی کی حکومت نہیں بنا سکیں گے‘ پی پی پی کو حکومت بنانے دیں‘ یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں نکال سکے گی‘‘ میٹنگ ختم ہو گئی‘ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض اس وقت جنرل اسلم بیگ اور جنرل رفاقت کے دوست تھے‘ جنرل رفاقت نے ملک ریاض کو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے پاس بھجوا دیا۔
ملک ریاض نے بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کو جنرل بیگ کے گھر ڈنر کی دعوت دی‘ یہ دونوں آرمی ہائوس پہنچ گئے‘ ملک ریاض بھی اس ڈنر میں موجود تھے‘ اس ڈنر کے دوران بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ‘بے نظیر ذاتی کار میں آرمی ہائوس آئیں لیکن سرکاری گاڑیوں میں ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس گئیں‘ ڈنر کے بعد جنرل اسلم بیگ نے محترمہ اور زرداری صاحب کو مبارک باد پیش کی اور ان سے صرف ایک درخواست کی ’’ جنرل ضیاء الحق ہمارے چیف تھے‘ آپ کے ہاتھ سے ان کی فیملی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے‘‘ بے نظیر بھٹو اس وارننگ پر خاموش رہیں‘ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء کو اقتدار سنبھالا‘ جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد کی حکومت توڑ ی تھی‘ ملک میں مارشل لاء لگایا تھا۔بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا تھا اور انھیں‘ ان کی والدہ اور ان کے بہن بھائیوں کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خاندان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
1996 میں اعجاز الحق نے راولپنڈی میں کلاشنکوف لہرا دی‘ جنرل نصیر اللہ بابر اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ جنرل صاحب نے اعجاز الحق کو گرفتار کرا دیا‘ جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاء نے جنرل اسلم بیگ کو فون کیا‘ جنرل بیگ اس وقت تک ریٹائر ہو چکے تھے لیکن یہ اٹھے‘ سیدھے وزیراعظم ہائوس گئے اور محترمہ سے کہا ’’ بی بی میں نے آپ سے درخواست کی تھی‘ آپ ہمارے چیف کی فیملی کو تنگ نہیں کریں گی‘‘ بے نظیر بھٹو نے اسی وقت اعجاز الحق کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
حکومت نے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے کی اصلی کلاشنکوف کو کھلونا کلاشنکوف قرار دیا اور اعجاز الحق کو رہا کر کے گھر بھجوا دیا‘ یہ درست ہے‘ یہ 1996ء کی بات تھی اور آج 2014ء ہے لیکن فوج کی روایات آج بھی قائم ہیں لہٰذا یہ جنرل پرویز مشرف پر آنچ نہیں آنے دے گی‘ یہ فوج کا فیصلہ ہے‘ دوسری طرف میاں نواز شریف نے بھی جنرل پرویز مشرف کو سزا دلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے‘ یہ دو فیصلوں کی لڑائی ہے‘ اس لڑائی میں اب جنگ گروپ ‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری بھی کود پڑے ہیں لیکن طاقتیں بہرحال دو ہی ہیں‘ فوج اور میاں نواز شریف۔ یہ جنگ کون جیتے گا یہ فیصلہ حالات کریں گے‘ حالات پلٹا کھا گئے تو میاں نواز شریف فاتح ہوں گے اور اگر حالات فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پھر میاں نواز شریف بدقسمتی سے اپنی تیسری اننگ بھی پوری نہیں کر سکیں گے اور یہ وقت آیا تو اس بار ان کے قریبی ترین ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

Wednesday, May 7, 2014

PIA aur Protocol by Javed Ch

مجھے دو مہینوں میں چھ بار بین الاقوامی سفر کرنے کا موقع ملا‘ میں اس دوران چھ مختلف ائیر لائینز کا مسافر رہا‘ دو مرتبہ پی آئی اے کا مہمان بھی بنا‘ مارچ میں دی ہیگ کے لیے پی آئی اے کی پیرس کی فلائیٹ لی اور دوسری بار پانچ مئی کو لندن سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد آیا‘ پاکستان میں ہر ہفتے ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر ویز کی درجنوں فلائیٹس آتی اور جاتی ہیں‘ یہ ہزاروں پاکستانیوں کو ہرہفتے ملک میں لاتی اور باہر لے جاتی ہیں‘ ان کے کرائے کم و بیش پی آئی اے کے برابر ہیں مگر جہازوں کے سائز‘ سہولتوں اور عملے کی شائستگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ تینوں ائیر لائینز مسافروں کو بہت اچھا کھانا دیتی ہیں‘ جہاز کے اندر انٹر نیٹ کی سہولت بھی ہوتی ہے‘ لوگ دوران پرواز ’’وائبر‘‘ کے ذریعے ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں‘ واش رومز صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ فضائی عملہ پانچ مسافروں کے بعد باتھ روم صاف کرتا ہے‘ آپ دس بار پانی‘ چائے‘ کافی یا سافٹ ڈرنک مانگیں‘ فضائی میزبانوں کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ جہاز میں سیکڑوں نئی پرانی فلموں‘ ٹی وی ڈراموں اور موسیقی کی چوائس موجود ہوتی ہے۔ کمبل بڑے‘ موٹے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ آپ کو کمبل پلاسٹک کے لفافے میں بند ملتے ہیں‘ آپ اپنے ہاتھوں سے کمبل کھولتے ہیں‘ ان تینوں ائیر لائینز کی بزنس کلاس شاندار اور جدید سہولتوں سے مزین ہے‘ نشستیں پورا بیڈ بن جاتی ہیں‘ دو مسافروں کے درمیان عارضی دیوار کھچ جاتی ہے‘ سیٹوں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ ہے۔
ائیر ہوسٹس مسافروں کو ان کے نام سے پکارتی ہیں‘ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کا باقاعدہ مینو کارڈ دیا جاتا ہے اور کھانا تازہ اور زیادہ ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پی آئی اے کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں‘ میری سیٹ پیرس جاتے ہوئے ایمرجنسی ایگزٹ پر تھی‘ واش روم میرے سامنے تھا‘ میں ساڑھے چھ گھنٹے اس واش روم کو بھگتتا رہا‘ مسافر پیرس جا رہے تھے لیکن اکثریت کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا تھا‘ پرواز کے آدھ گھنٹے بعد واش روم کا فرش گیلا ہو گیا‘ کموڈ غلاظت سے بھر گیا‘ واش بیسن کا پائپ بند ہو گیا اور لیکوڈ سوپ کی بوتل فرش پر گر گئی‘ خواتین آتی تھیں‘ واش روم کا دروازہ کھول کر بچوں کو کھڑے کھڑے پیشاب کرواتی تھیں۔
ایک مسافر اندر ہوتا تھا اور دوسرا دروازے کو دھکے دینا شروع کر دیتا تھا‘ لوگ فلش کیے بغیر نکل جاتے تھے‘ ہمارے سیکشن میں بو پھیل گئی تو میں نے ائیر ہوسٹس سے باتھ روم کی صفائی کی درخواست کی‘ ان کا جواب بہت دلچسپ تھا‘ انھوں نے فرمایا ’’ میں سویپر نہیں ہوں‘‘ میں نے ان سے پلاسٹک کا گلوز لیا اور اٹھ کر واش روم صاف کر دیا‘ مجھے اس کام میں صرف پانچ منٹ لگے‘ میں نے باقی تینوں ائیرلائینز میں ائیرہوسٹس کو باتھ رومز صاف کرتے دیکھا۔ میرا خیال تھا یہ معاملات صرف اکانومی کلاس میں ہوتے ہیں چنانچہ میں نے لندن سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر بزنس کلاس کا معیار بھی دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں بہت پست تھا‘ باتھ روم صاف تھا لیکن جہاز میں سوار ہو کر معلوم ہوا مسافروں کے لیے کھانا پاکستان سے آتا ہے۔
یہ کھانا رات کے وقت تیار ہوتا ہے‘ صبح ائیر پورٹ پہنچتا ہے‘ سات آٹھ گھنٹے کی فلائیٹ سے لندن اور پیرس آتا ہے‘ فلائیٹ وہاں دو گھنٹے رکتی ہے‘ مسافرسوار ہوتے ہیں اور جب ڈنر کی باری آتی ہے تو کھانے کو تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں‘ آپ اس سے کھانے کے معیار کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ پی آئی اے بیرون ملک سے صرف عملے کے لیے کھانا خریدتا ہے کیونکہ عملے نے یہ باسی کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن مسافروں کو چوبیس گھنٹے پرانا کھانا کھلایا جاتا ہے‘ مسافر تقریباً دو لاکھ روپے میں بزنس کلاس کا ٹکٹ خریدتے ہیں لیکن پی آئی اے انھیں دو ہزار روپے کا تازہ کھانا نہیں دیتی ہے ۔
میں پی آئی اے کے موجودہ انچارج شجاعت عظیم کا دل سے احترام کرتا ہوں‘ یہ میرے دوست طارق عظیم کے بھائی ہیں‘ یہ پی آئی اے کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے لیے خاصا زور لگا رہے ہیں لیکن میری ان سے درخواست ہے‘ یہ نئے جہازوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ موجودہ جہازوں کی حالت اور سروسز کے معیار پر بھی توجہ دیں‘ یہ حالات معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی رقم سے ٹھیک ہو سکتے ہیں‘ پی آئی اے اگر سیٹوں کی ایک دو قطاریں ختم کر دے تو اس سے نشستیں کھلی ہو جائیں گی‘ مسافروں کو سہولت ہو جائے گی۔ ائیر ہوسٹس کو پابند کیا جائے یہ ہر دس پندرہ منٹ بعد واش رومز کا چکر لگائیں اور انھیں صاف کریں‘ فضائی عملے کو واش رومز کی صفائی کا مناسب اور جدید سامان بھی فراہم کر دیا جائے‘ پی آئی اے ائیرپورٹس پر ٹرینی عملہ رکھ لے۔
یہ عملہ مسافروں کو واش رومز کے استعمال کے بارے میں بتائے بالخصوص پہلی بار سفر کرنے والے مسافروں‘ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو واش روم کے بارے میں ضرور معلومات دی جائیں‘ یہ مسافروں کو سمجھائے جہاز کے واش روم ہنگامی حالت کے لیے ہوتے ہیں‘ آپ جہاز پر سوار ہونے سے قبل خود بھی لائونج کا واش روم استعمال کریں اور بچوں کو بھی کروا دیں‘ مائیں جہاز میں بچوں کی نیپی تبدیل نہ کریں‘جہاز کی فضا آلودہ ہو جاتی ہے‘ مائیں یہ کام جہاز میں سوار ہونے سے پہلے کر سکتی ہیں‘ ائیر لائین کی سروس کے اسی فیصد کا دارومدار اس کے کھانے پر ہوتا ہے‘ آپ کھانے کے معاملے میں کنجوسی نہ کریں‘ آپ مسافروں سے کھانے کے پیسے وصول کرتے ہیں چنانچہ آپ دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں زیادہ اچھا کھانا دیں۔
پاکستان سے باسی کھانا نہ لائیں‘ لندن‘ پیرس اور نیویارک سے فریش کھانا لوڈ کیا کریں‘ پی آئی اے کے کمبل بہت پتلے‘ چھوٹے‘ سستے اور گندے ہیں‘ آپ یہ کمبل منہ پر لیتے ہیں تو ناف سے لے کر پائوں تک آپ کا دھڑ ننگا ہو جاتا ہے‘ آپ کمبل پائوں پر ڈالتے ہیں تو ناف سے سر تک ننگے رہ جاتے ہیں‘ کمبلوں سے بو بھی آتی ہے‘ آپ فوری طور پر یہ کمبل تبدیل کرا دیں‘ لمبے‘ موٹے اور اعلیٰ کوالٹی کے کمبل خریدیں‘ ایک استعمال کے بعد انھیں استری کرائیں اور یہ کمبل مسافروں کو لفافے میں پیک کرکے دیں‘ جہازوں کا وڈیو سسٹم اپ گریڈ کریں‘ آپ ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر لائینز کی طرح ہر مہینے نئی فلمیں اپ لوڈ کریں تا کہ مسافروں کو تفریح کی زیادہ ورائٹی مل سکے۔
وڈیو گیمز بھی شروع کریں اور دوران پرواز ’’ وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی دیں‘ یہ سہولتیں اب بہت سستی ہو چکی ہیں‘ آپ چند ہزار ڈالر خرچ کر کے مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنا سکتے ہیں‘ فضائی عملے کو بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے‘ آپ انھیں بھی میزبانی کے جدید طریقے سکھائیں‘ چائے اور کافی کا معیار بھی ’’امپروو‘‘ کریں‘ پرواز کے شروع میں انائونسمنٹ ہوتی ہے‘ آپ اگر اس انائونسمنٹ میں جہاز میں دستیاب سہولتوں اور ان سہولتوں کے استعمال کے طریقوں کو بھی شامل کر لیں تو اس سے بھی مسافروں کو سہولت ہو گی۔
میں پانچ مئی کی شام لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا‘ ہیتھرو ائیر پورٹ پرپاکستانی ہائی کمیشن کے چار افسر تین مسافروں کی ایک فیملی کو بے تحاشا پروٹوکول دے رہے تھے‘یہ چاروں سفارت کارفیملی کے بیگ اٹھا کر لائے‘ بک کروائے اوریہ بعدازاں تینوں مسافروں کے چھوٹے بیگ اٹھا کر جہاز میں داخل ہوئے‘ مسافروں کو سیٹوں پر بٹھایا‘ اپنے دست مبارک سے ان کے بیگ بالائی خانے میں رکھے اور ان سے اجازت لے کر جہاز سے باہر گئے‘ یہ سینئر افسر تھے مگر ان کے چہروں پر خوشامد اشتہار بن کر چمک رہی تھی‘ اس وی وی آئی پی فیملی میں دو خواتین اور ایک نوجوان شامل تھا۔
ان تینوں کے پروٹوکول نے جہاز میں سراسیمگی پھیلا دی اور مسافر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ میرے ساتھی مسافر نے فضائی عملے سے فیملی کا حدود اربعہ پوچھا‘ پتہ چلا یہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی کی اہلیہ ہیں‘ میرے ساتھی مسافر نے عملے سے پوچھا ’’ کیا ان کے پاس بزنس کلاس کا ٹکٹ ہے؟‘‘ عملے نے جواب دینے سے معذرت کر لی مگر جواب اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا‘ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے‘ یہ واقعی بزنس کلاس کے مسافر تھے یا پھر انھیں ’’اپ گریڈ‘‘ کیا گیا تھا‘ ہم صرف پروٹوکول کی بات کرتے ہیں‘ کیا ہم نے سفارت خانے مشیروں کی فیملیز کو ائیرپورٹس اور جہازوں میں پروٹوکول دینے کے لیے بنائے ہیں‘ اگرہاں تو پھر ہم  سفارت خانوں کو پروٹوکول آفسز اور سفارت کاروں کو پروٹوکول افسرکیوں نہیں بنا دیتے؟
یہ پروٹوکول اگر جائز بھی ہے تو بھی یہ صرف طارق فاطمی کو ملنا چاہیے‘ ان کی غیر موجودگی میں ان کے اہل خانہ کس پوزیشن سے پروٹوکول لے رہے ہیں‘ سفارتی عملہ ان کے بیگ اٹھا کر جہاز میں کیوں رکھ رہا ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر حکومت مہربانی فرما کر ملک کی ان تمام شخصیات اور ان کے خاندانوں کی فہرست جاری کر دے جن کو ہر مناسب اور نامناسب جگہ پر پروٹوکول ملے گا تا کہ قوم کو یہ مناظر دیکھ کر تکلیف نہ ہو‘ میں نے اپنی آنکھوں سے امریکی اور برطانوی سفیروں‘ وزراء اور مشیروں کو ائیرپورٹس پر اپنا بیگ خود اٹھاتے اور جہاز میں سوار ہوتے دیکھا ہے‘ یہ لوگ اکانومی کلاس میں  سفر کرتے ہیں جب کہ ہمارے مشیروں اور وزیروں کی فیملیز تک کے نخرے ختم نہیں ہو رہے‘ ہم کس دور میں زندہ ہیں اور ہم اس دور سے کب باہر نکلیں گے جب ہر حکمران ظل الٰہی ہوتا تھا اور اس کے علاوہ پوری مخلوق غلام ہوتی تھی‘ یہ پروٹوکول اس ملک کی جان کب چھوڑے گا۔