Monday, May 12, 2014

Baat Ghalat Nahi by Javed Ch

Imran Khan k Mutalibat

Thursday, May 8, 2014

Faisla Halat Karen gai by Javed Ch

فیصلہ حالات کریں گے


میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا‘ میرے زیادہ تر دوستوں کا خیال تھاآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا اس لانگ مارچ کے پیچھے ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور چیف جسٹس بھی اس سازش کا حصہ ہیں‘ یہ تمام لوگ مل کر میاں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن مجھے اس سازشی تھیوری سے اختلاف تھا‘ میں جانتا تھا چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر چکے ہیں‘ چوہدری صاحب اور میاں شہباز شریف کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ کئی خفیہ اور ظاہری ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں تمام معاملات طے پا گئے۔
صدر آصف علی زرداری بھی اقتدار جمہوری ہاتھوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی جمہوریت کے خوفناک سپورٹر ہیں‘ یہ دعویٰ کر چکے ہیں ’’ میں پاکستان میں جمہوریت کا آخری مخالف ہوں گا‘‘ چنانچہ میرا خیال تھا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائیٹ ہے‘ علامہ صاحب اپنے مذہبی اور روحانی حلقے میں بہت پاپولر ہیں‘ لوگ ان کے لیے مال اور جان تک قربان کردیتے ہیں چنانچہ یہ نظام کو صرف اور صرف اپنی مقبولیت اور طاقت دکھانے کے لیے میدان میں اترے ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی نہیں مگر اس وقت کسی دانشور نے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم بھی شروع میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔
یہ جماعتیں بھی علامہ صاحب کو فوج کا گھوڑا سمجھ کر ان کی طرف محبت  سے دیکھنے لگیں لیکن جب تینوں جماعتوں کو کسی طرف سے ٹیلی فون نہ آیا تو یہ اسپرنگ کی طرح واپس چلی گئیں اور علامہ صاحب لانگ مارچ کے کارزار میں اکیلے رہ گئے‘ یہ 13 جنوری کو اسلام آباد پہنچے ‘ ان کے کارکن سخت سردی میں 17 جنوری تک بلیو ایریا میں بیٹھے رہے‘ اس دوران سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے چند گھنٹوں کے لیے یہ غلط فہمی ضرور پھیلا دی کہ اسٹیبلشمنٹ علامہ صاحب کے ساتھ کھڑی ہے مگر اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے خود ہی یہ تاثر زائل کر دیا‘ علامہ صاحب 17 جنوری کو ایک جعلی معاہدہ لے کر واپس چلے گئے اور یوں یہ لانگ مارچ ختم ہوگیا۔
علامہ صاحب کے بقول وہ لانگ مارچ’’ میری تحریک کی اذان تھا‘ میں نے اب11 مئی کو عوام کو اقامت کی دعوت دے دی ہے‘‘ 11 مئی کو علامہ صاحب کی اقامت شروع ہوگی مگر اس بار عمران خان بھی تقریباً ان کے ساتھ ہیں‘ علامہ طاہر القادری اورعمران خان دونوں الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں مگر دونوں کا احتجاج کا دن اور مقصد ایک ہے‘ یہ دونوں نظام بدلنا چاہتے ہیں‘ سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار اس بار بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی 11 مئی کی ریلیوں کے پیچھے کھڑی ہے‘ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ فوج علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں پر اعتبار نہیں کرے گی۔
علامہ طاہر القادری عوامی انقلاب لانا چاہتے ہیں جب کہ عمران خان ملک کے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے کروانا چاہتے ہیں اور یہ دو خواہشات اسٹیبلشمنٹ کے مائینڈ سیٹ کے خلاف ہیں لہٰذا فوج کبھی اپنے پائوں کاٹنے کے لیے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے ہاتھ میں کلہاڑا نہیں دے گی لیکن اب سوال یہ ہے‘ عمران خان نے فوج اور آئی ایس آئی کا پرچم اٹھا کر اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر کیوں لگا لیا اور علامہ طاہر القادری بھی عین اس وقت ریلی کیوں نکال رہے ہیں جب فوج‘ جیو اور حکومت تینوں آمنے سامنے کھڑے ہیں‘ اس کا واحد جواب ٹائمنگ ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے ایشو اور خواجگان کے گرم بیانات کی وجہ سے فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات تھے‘ حامد میر پر حملے کے بعد جیو نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی‘ اس کوشش نے فوج اور جیو کے درمیان بھی اختلافات پیدا کر دیے۔
سہ فریقی لڑائی شروع ہوئی اور اس لڑائی نے ملک میں بحران پیدا کر دیا ‘ علامہ اور عمران خان نے اس بحران کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کا خیال ہے یہ ان جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کر لیں گے لیکن میرا نہیں خیال فوج عمران خان یا مولانا کو موقع دے گی چنانچہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی‘ میاں نواز شریف اپنی تمام تر ناقص پالیسیوں اور بے لچک رویوں کے باوجود سیاسی لحاظ سے مضبوط ہیں‘ ان کی گیارہ ماہ کی پرفارمنس بالخصوص اسحاق ڈار کی معاشی کامیابیاں قابل تعریف ہیں‘ ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے لیکن عابد شیر علی کی پرفارمنس بری نہیں۔
احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی کی سمت بھی ٹھیک ہے جب کہ ہم لاکھ انکار کریں مگر یہ حقیقت ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کی حالت بدل دی ہے‘ چھ سال پرانے پنجاب اور آج کے پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے چنانچہ صرف ریلیوں کی مدد سے میاں نواز شریف کی حکومت گرانا آسان نہیں ہوگا‘ ہاں البتہ اگر امریکا اور اس کے یورپی اتحادی چاہیں اور فوج کے ساتھ میاں نواز شریف کے اختلافات انتہا کو چھو لیں یا جیو کا ایشو مزید گھمبیر ہو جائے تو پھر تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں پیالی کا یہ طوفان 11 مئی کی رات ختم ہو جائے گا۔
ہم اب فوج کی طرف آتے ہیں‘ہماری فوج اپنے سابق اور موجودہ چیفس کے معاملے میں بہت حساس ہے‘ یہ چیفس کے انتقال کے بعد بھی انھیں سیکیورٹی دیتی ہے اور ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی‘ فوج اپنے چیفس کے بارے میں کتنی حساس ہے آپ اس سلسلے میں ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں شہید ہو گئے‘ غلام اسحاق خان اس وقت سینیٹ کے چیئرمین اور جنرل اسلم بیگ سینئر ترین جرنیل تھے‘ غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جب کہ جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن گئے۔
غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ دونوں محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اکٹھا کیا گیا‘ آئی جے آئی بنائی گئی‘ آئی ایس آئی کو بے نظیر بھٹو کو ہرانے کا ٹاسک دیا گیا‘ 14 کروڑ روپے کی رقم ریلیز ہوئی‘ ریاستی طاقت استعمال ہوئی‘ 16 نومبر 1988ء کو الیکشن ہوئے مگر نتائج توقع کے برعکس نکلے‘ آئی جے آئی صرف 56 نشستیں حاصل کر سکی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 94 ایم این ایز تھے‘40 ارکان آزاد تھے‘ نتیجہ نکل آیامگراسٹیبلشمنٹ نے ہمت نہ ہاری‘ جنرل رفاقت اس وقت صدر کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
جنرل رفاقت کو آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے اور پی پی پی کو توڑنے کا ٹاسک دیا گیا‘ جنرل رفاقت کے پاس صرف 15 دن تھے‘ دس دن بعد میٹنگ ہوئی‘ صدر کے سامنے ساری پکچر رکھ دی گئی‘ صدر خاموشی سے سنتے رہے‘اٹھے‘ واش روم میں گئے‘ منہ دھویا اور باہر آکر اعلان کر دیا ’’ہم آئی جے آئی کی حکومت نہیں بنا سکیں گے‘ پی پی پی کو حکومت بنانے دیں‘ یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں نکال سکے گی‘‘ میٹنگ ختم ہو گئی‘ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض اس وقت جنرل اسلم بیگ اور جنرل رفاقت کے دوست تھے‘ جنرل رفاقت نے ملک ریاض کو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے پاس بھجوا دیا۔
ملک ریاض نے بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کو جنرل بیگ کے گھر ڈنر کی دعوت دی‘ یہ دونوں آرمی ہائوس پہنچ گئے‘ ملک ریاض بھی اس ڈنر میں موجود تھے‘ اس ڈنر کے دوران بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ‘بے نظیر ذاتی کار میں آرمی ہائوس آئیں لیکن سرکاری گاڑیوں میں ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس گئیں‘ ڈنر کے بعد جنرل اسلم بیگ نے محترمہ اور زرداری صاحب کو مبارک باد پیش کی اور ان سے صرف ایک درخواست کی ’’ جنرل ضیاء الحق ہمارے چیف تھے‘ آپ کے ہاتھ سے ان کی فیملی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے‘‘ بے نظیر بھٹو اس وارننگ پر خاموش رہیں‘ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء کو اقتدار سنبھالا‘ جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد کی حکومت توڑ ی تھی‘ ملک میں مارشل لاء لگایا تھا۔بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا تھا اور انھیں‘ ان کی والدہ اور ان کے بہن بھائیوں کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خاندان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
1996 میں اعجاز الحق نے راولپنڈی میں کلاشنکوف لہرا دی‘ جنرل نصیر اللہ بابر اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ جنرل صاحب نے اعجاز الحق کو گرفتار کرا دیا‘ جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاء نے جنرل اسلم بیگ کو فون کیا‘ جنرل بیگ اس وقت تک ریٹائر ہو چکے تھے لیکن یہ اٹھے‘ سیدھے وزیراعظم ہائوس گئے اور محترمہ سے کہا ’’ بی بی میں نے آپ سے درخواست کی تھی‘ آپ ہمارے چیف کی فیملی کو تنگ نہیں کریں گی‘‘ بے نظیر بھٹو نے اسی وقت اعجاز الحق کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
حکومت نے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے کی اصلی کلاشنکوف کو کھلونا کلاشنکوف قرار دیا اور اعجاز الحق کو رہا کر کے گھر بھجوا دیا‘ یہ درست ہے‘ یہ 1996ء کی بات تھی اور آج 2014ء ہے لیکن فوج کی روایات آج بھی قائم ہیں لہٰذا یہ جنرل پرویز مشرف پر آنچ نہیں آنے دے گی‘ یہ فوج کا فیصلہ ہے‘ دوسری طرف میاں نواز شریف نے بھی جنرل پرویز مشرف کو سزا دلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے‘ یہ دو فیصلوں کی لڑائی ہے‘ اس لڑائی میں اب جنگ گروپ ‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری بھی کود پڑے ہیں لیکن طاقتیں بہرحال دو ہی ہیں‘ فوج اور میاں نواز شریف۔ یہ جنگ کون جیتے گا یہ فیصلہ حالات کریں گے‘ حالات پلٹا کھا گئے تو میاں نواز شریف فاتح ہوں گے اور اگر حالات فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پھر میاں نواز شریف بدقسمتی سے اپنی تیسری اننگ بھی پوری نہیں کر سکیں گے اور یہ وقت آیا تو اس بار ان کے قریبی ترین ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

Wednesday, May 7, 2014

PIA aur Protocol by Javed Ch

مجھے دو مہینوں میں چھ بار بین الاقوامی سفر کرنے کا موقع ملا‘ میں اس دوران چھ مختلف ائیر لائینز کا مسافر رہا‘ دو مرتبہ پی آئی اے کا مہمان بھی بنا‘ مارچ میں دی ہیگ کے لیے پی آئی اے کی پیرس کی فلائیٹ لی اور دوسری بار پانچ مئی کو لندن سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد آیا‘ پاکستان میں ہر ہفتے ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر ویز کی درجنوں فلائیٹس آتی اور جاتی ہیں‘ یہ ہزاروں پاکستانیوں کو ہرہفتے ملک میں لاتی اور باہر لے جاتی ہیں‘ ان کے کرائے کم و بیش پی آئی اے کے برابر ہیں مگر جہازوں کے سائز‘ سہولتوں اور عملے کی شائستگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ تینوں ائیر لائینز مسافروں کو بہت اچھا کھانا دیتی ہیں‘ جہاز کے اندر انٹر نیٹ کی سہولت بھی ہوتی ہے‘ لوگ دوران پرواز ’’وائبر‘‘ کے ذریعے ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں‘ واش رومز صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ فضائی عملہ پانچ مسافروں کے بعد باتھ روم صاف کرتا ہے‘ آپ دس بار پانی‘ چائے‘ کافی یا سافٹ ڈرنک مانگیں‘ فضائی میزبانوں کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ جہاز میں سیکڑوں نئی پرانی فلموں‘ ٹی وی ڈراموں اور موسیقی کی چوائس موجود ہوتی ہے۔ کمبل بڑے‘ موٹے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ آپ کو کمبل پلاسٹک کے لفافے میں بند ملتے ہیں‘ آپ اپنے ہاتھوں سے کمبل کھولتے ہیں‘ ان تینوں ائیر لائینز کی بزنس کلاس شاندار اور جدید سہولتوں سے مزین ہے‘ نشستیں پورا بیڈ بن جاتی ہیں‘ دو مسافروں کے درمیان عارضی دیوار کھچ جاتی ہے‘ سیٹوں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ ہے۔
ائیر ہوسٹس مسافروں کو ان کے نام سے پکارتی ہیں‘ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کا باقاعدہ مینو کارڈ دیا جاتا ہے اور کھانا تازہ اور زیادہ ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پی آئی اے کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں‘ میری سیٹ پیرس جاتے ہوئے ایمرجنسی ایگزٹ پر تھی‘ واش روم میرے سامنے تھا‘ میں ساڑھے چھ گھنٹے اس واش روم کو بھگتتا رہا‘ مسافر پیرس جا رہے تھے لیکن اکثریت کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا تھا‘ پرواز کے آدھ گھنٹے بعد واش روم کا فرش گیلا ہو گیا‘ کموڈ غلاظت سے بھر گیا‘ واش بیسن کا پائپ بند ہو گیا اور لیکوڈ سوپ کی بوتل فرش پر گر گئی‘ خواتین آتی تھیں‘ واش روم کا دروازہ کھول کر بچوں کو کھڑے کھڑے پیشاب کرواتی تھیں۔
ایک مسافر اندر ہوتا تھا اور دوسرا دروازے کو دھکے دینا شروع کر دیتا تھا‘ لوگ فلش کیے بغیر نکل جاتے تھے‘ ہمارے سیکشن میں بو پھیل گئی تو میں نے ائیر ہوسٹس سے باتھ روم کی صفائی کی درخواست کی‘ ان کا جواب بہت دلچسپ تھا‘ انھوں نے فرمایا ’’ میں سویپر نہیں ہوں‘‘ میں نے ان سے پلاسٹک کا گلوز لیا اور اٹھ کر واش روم صاف کر دیا‘ مجھے اس کام میں صرف پانچ منٹ لگے‘ میں نے باقی تینوں ائیرلائینز میں ائیرہوسٹس کو باتھ رومز صاف کرتے دیکھا۔ میرا خیال تھا یہ معاملات صرف اکانومی کلاس میں ہوتے ہیں چنانچہ میں نے لندن سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر بزنس کلاس کا معیار بھی دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں بہت پست تھا‘ باتھ روم صاف تھا لیکن جہاز میں سوار ہو کر معلوم ہوا مسافروں کے لیے کھانا پاکستان سے آتا ہے۔
یہ کھانا رات کے وقت تیار ہوتا ہے‘ صبح ائیر پورٹ پہنچتا ہے‘ سات آٹھ گھنٹے کی فلائیٹ سے لندن اور پیرس آتا ہے‘ فلائیٹ وہاں دو گھنٹے رکتی ہے‘ مسافرسوار ہوتے ہیں اور جب ڈنر کی باری آتی ہے تو کھانے کو تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں‘ آپ اس سے کھانے کے معیار کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ پی آئی اے بیرون ملک سے صرف عملے کے لیے کھانا خریدتا ہے کیونکہ عملے نے یہ باسی کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن مسافروں کو چوبیس گھنٹے پرانا کھانا کھلایا جاتا ہے‘ مسافر تقریباً دو لاکھ روپے میں بزنس کلاس کا ٹکٹ خریدتے ہیں لیکن پی آئی اے انھیں دو ہزار روپے کا تازہ کھانا نہیں دیتی ہے ۔
میں پی آئی اے کے موجودہ انچارج شجاعت عظیم کا دل سے احترام کرتا ہوں‘ یہ میرے دوست طارق عظیم کے بھائی ہیں‘ یہ پی آئی اے کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے لیے خاصا زور لگا رہے ہیں لیکن میری ان سے درخواست ہے‘ یہ نئے جہازوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ موجودہ جہازوں کی حالت اور سروسز کے معیار پر بھی توجہ دیں‘ یہ حالات معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی رقم سے ٹھیک ہو سکتے ہیں‘ پی آئی اے اگر سیٹوں کی ایک دو قطاریں ختم کر دے تو اس سے نشستیں کھلی ہو جائیں گی‘ مسافروں کو سہولت ہو جائے گی۔ ائیر ہوسٹس کو پابند کیا جائے یہ ہر دس پندرہ منٹ بعد واش رومز کا چکر لگائیں اور انھیں صاف کریں‘ فضائی عملے کو واش رومز کی صفائی کا مناسب اور جدید سامان بھی فراہم کر دیا جائے‘ پی آئی اے ائیرپورٹس پر ٹرینی عملہ رکھ لے۔
یہ عملہ مسافروں کو واش رومز کے استعمال کے بارے میں بتائے بالخصوص پہلی بار سفر کرنے والے مسافروں‘ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو واش روم کے بارے میں ضرور معلومات دی جائیں‘ یہ مسافروں کو سمجھائے جہاز کے واش روم ہنگامی حالت کے لیے ہوتے ہیں‘ آپ جہاز پر سوار ہونے سے قبل خود بھی لائونج کا واش روم استعمال کریں اور بچوں کو بھی کروا دیں‘ مائیں جہاز میں بچوں کی نیپی تبدیل نہ کریں‘جہاز کی فضا آلودہ ہو جاتی ہے‘ مائیں یہ کام جہاز میں سوار ہونے سے پہلے کر سکتی ہیں‘ ائیر لائین کی سروس کے اسی فیصد کا دارومدار اس کے کھانے پر ہوتا ہے‘ آپ کھانے کے معاملے میں کنجوسی نہ کریں‘ آپ مسافروں سے کھانے کے پیسے وصول کرتے ہیں چنانچہ آپ دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں زیادہ اچھا کھانا دیں۔
پاکستان سے باسی کھانا نہ لائیں‘ لندن‘ پیرس اور نیویارک سے فریش کھانا لوڈ کیا کریں‘ پی آئی اے کے کمبل بہت پتلے‘ چھوٹے‘ سستے اور گندے ہیں‘ آپ یہ کمبل منہ پر لیتے ہیں تو ناف سے لے کر پائوں تک آپ کا دھڑ ننگا ہو جاتا ہے‘ آپ کمبل پائوں پر ڈالتے ہیں تو ناف سے سر تک ننگے رہ جاتے ہیں‘ کمبلوں سے بو بھی آتی ہے‘ آپ فوری طور پر یہ کمبل تبدیل کرا دیں‘ لمبے‘ موٹے اور اعلیٰ کوالٹی کے کمبل خریدیں‘ ایک استعمال کے بعد انھیں استری کرائیں اور یہ کمبل مسافروں کو لفافے میں پیک کرکے دیں‘ جہازوں کا وڈیو سسٹم اپ گریڈ کریں‘ آپ ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر لائینز کی طرح ہر مہینے نئی فلمیں اپ لوڈ کریں تا کہ مسافروں کو تفریح کی زیادہ ورائٹی مل سکے۔
وڈیو گیمز بھی شروع کریں اور دوران پرواز ’’ وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی دیں‘ یہ سہولتیں اب بہت سستی ہو چکی ہیں‘ آپ چند ہزار ڈالر خرچ کر کے مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنا سکتے ہیں‘ فضائی عملے کو بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے‘ آپ انھیں بھی میزبانی کے جدید طریقے سکھائیں‘ چائے اور کافی کا معیار بھی ’’امپروو‘‘ کریں‘ پرواز کے شروع میں انائونسمنٹ ہوتی ہے‘ آپ اگر اس انائونسمنٹ میں جہاز میں دستیاب سہولتوں اور ان سہولتوں کے استعمال کے طریقوں کو بھی شامل کر لیں تو اس سے بھی مسافروں کو سہولت ہو گی۔
میں پانچ مئی کی شام لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا‘ ہیتھرو ائیر پورٹ پرپاکستانی ہائی کمیشن کے چار افسر تین مسافروں کی ایک فیملی کو بے تحاشا پروٹوکول دے رہے تھے‘یہ چاروں سفارت کارفیملی کے بیگ اٹھا کر لائے‘ بک کروائے اوریہ بعدازاں تینوں مسافروں کے چھوٹے بیگ اٹھا کر جہاز میں داخل ہوئے‘ مسافروں کو سیٹوں پر بٹھایا‘ اپنے دست مبارک سے ان کے بیگ بالائی خانے میں رکھے اور ان سے اجازت لے کر جہاز سے باہر گئے‘ یہ سینئر افسر تھے مگر ان کے چہروں پر خوشامد اشتہار بن کر چمک رہی تھی‘ اس وی وی آئی پی فیملی میں دو خواتین اور ایک نوجوان شامل تھا۔
ان تینوں کے پروٹوکول نے جہاز میں سراسیمگی پھیلا دی اور مسافر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ میرے ساتھی مسافر نے فضائی عملے سے فیملی کا حدود اربعہ پوچھا‘ پتہ چلا یہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی کی اہلیہ ہیں‘ میرے ساتھی مسافر نے عملے سے پوچھا ’’ کیا ان کے پاس بزنس کلاس کا ٹکٹ ہے؟‘‘ عملے نے جواب دینے سے معذرت کر لی مگر جواب اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا‘ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے‘ یہ واقعی بزنس کلاس کے مسافر تھے یا پھر انھیں ’’اپ گریڈ‘‘ کیا گیا تھا‘ ہم صرف پروٹوکول کی بات کرتے ہیں‘ کیا ہم نے سفارت خانے مشیروں کی فیملیز کو ائیرپورٹس اور جہازوں میں پروٹوکول دینے کے لیے بنائے ہیں‘ اگرہاں تو پھر ہم  سفارت خانوں کو پروٹوکول آفسز اور سفارت کاروں کو پروٹوکول افسرکیوں نہیں بنا دیتے؟
یہ پروٹوکول اگر جائز بھی ہے تو بھی یہ صرف طارق فاطمی کو ملنا چاہیے‘ ان کی غیر موجودگی میں ان کے اہل خانہ کس پوزیشن سے پروٹوکول لے رہے ہیں‘ سفارتی عملہ ان کے بیگ اٹھا کر جہاز میں کیوں رکھ رہا ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر حکومت مہربانی فرما کر ملک کی ان تمام شخصیات اور ان کے خاندانوں کی فہرست جاری کر دے جن کو ہر مناسب اور نامناسب جگہ پر پروٹوکول ملے گا تا کہ قوم کو یہ مناظر دیکھ کر تکلیف نہ ہو‘ میں نے اپنی آنکھوں سے امریکی اور برطانوی سفیروں‘ وزراء اور مشیروں کو ائیرپورٹس پر اپنا بیگ خود اٹھاتے اور جہاز میں سوار ہوتے دیکھا ہے‘ یہ لوگ اکانومی کلاس میں  سفر کرتے ہیں جب کہ ہمارے مشیروں اور وزیروں کی فیملیز تک کے نخرے ختم نہیں ہو رہے‘ ہم کس دور میں زندہ ہیں اور ہم اس دور سے کب باہر نکلیں گے جب ہر حکمران ظل الٰہی ہوتا تھا اور اس کے علاوہ پوری مخلوق غلام ہوتی تھی‘ یہ پروٹوکول اس ملک کی جان کب چھوڑے گا۔

Sunday, April 27, 2014

Qaumi Tanaaza, Jeet aur Haar by Talat Hussain

Very deep

1.5 Billion $ by Nazir Naji

Firqa Wariyat.. Link for Good Font Size please...
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2014-04-26/6870/58076360


Khurkoo by Izhar ul Haq

WAh

Zra Intezar by Izhar ul Haq

Kuch Anhoni Khabren

Jaltey Ghar, Mandir aur Dil by Rauf Klasra

Media ki Phelayi Nafrat by Aurya Maqbool Jaan

Again an old article but worth reading

Aakhri Maarka by Aurya Maqbool Jaan

An old article but gud one

Hathi k Mu se Ganna by Javed Ch

Interesting.. Link for good font is given above....
http://www.javed-chaudhry.com/page/2/

Friday, April 25, 2014

Nawaz Govt and Present Crisis by Talat Hussain

Nawaz league ki Incompetency

How West can Promote Islamic Reformation by Cheryl Benard

Five Pillars of Democracy

How the West Can Promote an Islamic Reformation

By Cheryl Benard
Cheryl Benard is a senior political scientist at RAND.


Rival versions of Islam are contending for spiritual and political dominance, with immense implications for the rest of the world. By understanding the ongoing ideological struggle within Islam and by distinguishing among the competing strains of Islamic thought, Western leaders can identify appropriate Islamic partners and work with them to discourage extremism and violence as well as to encourage democratization and development.
The notion that the outside world should try to nurture a moderate, democratic version of Islam has been in circulation for decades but gained great urgency after Sept. 11, 2001. There is broad agreement that this is a constructive approach. Islam inspires a variety of ideologies and political actions, some of which are inimical to global stability. It therefore seems sensible to foster the strains within Islam that call for a more moderate, democratic, peaceful, and tolerant social order.
It is no easy matter to transform a major world religion. If "nation-building" is a daunting task, "religionbuilding" is immeasurably more perilous and complex. Islam is neither a homogeneous entity nor a selfcontained system. Many extraneous issues and problems have become entangled with the religion. Many political actors in the Muslim world deliberately seek to "Islamize" the debate in a way that they think will further their goals.
The current crisis in Islam has two main components: a failure to thrive on its own terms and a loss of connection to the global mainstream. The Islamic world has been marked by a long period of backwardness and comparative powerlessness. Many homegrown solutions—such as nationalism, pan-Arabism, Arab socialism, and Islamic revolution—have been attempted without success, leading to frustration and anger. Meanwhile, the Islamic world has both fallen out of step with contemporary global culture and moved increasingly to the margins of the global economy, creating an uncomfortable situation for both sides.
Muslims disagree on what to do about the crisis, what has caused it, and what their societies ultimately should look like. For the West, the question is which ideology (or ideologies) to support; with what methods; and with what concrete, realistic goals in mind.

An Ideological Spectrum

There are essentially four ideological positions in the Muslim world today: fundamentalist, traditionalist, modernist, and secularist. Each group contains subgroups that blur the distinctions among the primary groups. It is important for Western leaders to understand the differences within groups as well as among groups.
Fundamentalists reject democratic values and contemporary Western culture. They want an authoritarian, puritanical state to implement their extreme view of Islamic law and morality. They are willing to use innovation and modern technology. They do not shy away from violence.
There are two strands of fundamentalism. One, grounded in theology and usually rooted in a religious establishment, belongs to the scriptural fundamentalists. This group includes most of the Iranian revolutionaries, the Saudi-based Wahhabis, and the Kaplan congregation of Turks. The radical fundamentalists, in contrast, are much less concerned with the literal substance of Islam, with which they take considerable liberties either deliberately or because of ignorance of orthodox Islamic doctrine. Al Qaeda, the Afghan Taliban, Hizb-ut-Tahrir, and a large number of other Islamic radical movements and diffuse groups worldwide belong to this category.
Traditionalists want a conservative society. They are suspicious of modernity, innovation, and change. They are also divided into two groups. The distinction is significant.
The conservative traditionalists believe that Islamic law and tradition ought to be rigorously and literally followed. They see a role for the state and for the political authorities in encouraging or at least facilitating this. However, they do not generally favor violence and terrorism. They concentrate their efforts on the daily life of society. Their goal is to preserve orthodox norms and values and conservative behavior to the fullest extent possible. Their posture is one of resistance to change. The temptations and the pace of modern life are seen as posing major threats.
The reformist traditionalists believe that Islam, to remain viable and attractive throughout the ages, must be prepared to make some concessions in the application of orthodoxy. They are prepared to discuss reforms and reinterpretations. Their posture is one of cautious adaptation to change, being flexible on the letter of the law to conserve the spirit of the law.
Modernists want the Islamic world to become part of global modernity. They want to reform Islam to bring it into line with the modern age. They actively seek far-reaching changes to the current orthodox understanding and practice of Islam. They want to jettison the burdensome ballast of local and regional tradition that, over the centuries, has intertwined itself with Islam.
They further believe in the historicity of Islam—that Islam as it was practiced in the days of the Prophet reflected eternal truths as well as historical circumstances that were appropriate to the time but are no longer valid. They believe that the essential core of Islamic belief not only will remain undamaged but will be strengthened by changes, even very substantial changes, that reflect changing times, social conditions, and historical circumstances. Their core values—the primacy of the individual conscience and of a community based on social responsibility, equality, and freedom—are easily compatible with modern democratic norms.
Secularists want the Islamic world to accept a division of mosque and state in the manner of Western industrial democracies, with religion relegated to the private sphere. They further believe that religious customs must be in conformity with the law of the land and human rights. The Turkish Kemalists, who placed religion under the firm control of the state, represent the secularist model in Islam.
These positions should be viewed as segments on a continuum, rather than divergent categories. There are no clear boundaries among them. Some traditionalists overlap with fundamentalists. The most modernist of the traditionalists are almost modernists. The most extreme modernists are similar to secularists. At the same time, the groups hold distinctly different positions on issues that have become contentious in the Islamic world today, including political and individual freedom, education, the status of women, criminal justice, the legitimacy of reform and change, and attitudes toward the West.

An Agenda for Reform

Whirling dervishes 
 
What the roiling ideological ferment requires from the West is both a firm commitment to fundamental Western values and a sequence of flexible postures suited to different Islamic contexts, populations, and countries. This approach could help to develop civil, democratic Islam while giving the West the versatility to deal appropriately with different settings.
The following outline describes what such a strategy might look like. It rests on "five pillars of democracy" for the Islamic world. The pillars correspond to the postures that the West should take toward the four ideological groups and toward ordinary citizens in Muslim countries.
1. Support the modernists first, promoting their version of Islam by equipping them with a broad platform to articulate and to disseminate their views. It is tempting to choose the traditionalists as the primary agents for fostering democratic Islam, and this appears to be the course that the West is inclined to take. However, some very serious problems argue against taking such a course.
Overendorsing the traditionalists could undermine the ongoing internal reform effort within Islam and hinder those—the modernists—whose values are genuinely compatible with our own. Of all the groups, the modernists are the most congenial to the values and spirit of modern democratic society. We need to advance their vision of Islam over that of the traditionalists.
Modernism, not traditionalism, is what worked for the West. This included the necessity to depart from, modify, and selectively ignore elements of the original religious doctrine. The Old Testament is not different from the Koran in endorsing conduct and containing a number of rules and values that are unthinkable, not to mention illegal, in modern society. This does not pose a problem in the West, because few people today would insist that we should all be living in the exact literal manner of the Biblical patriarchs. Instead, we allow our vision of the true message of Judaism or Christianity to transcend the literal text, which we regard as history and legend. That is exactly the approach proposed by Islamic modernists.
Secularists are also close to the West in terms of their values and policies. But some secularists are unacceptable to the West because of their reflexive anti- Americanism or other positions. The secularists also have trouble appealing to the traditional sectors of an Islamic audience.
For these reasons, the modernists are the best partners for the West. Unfortunately, they are generally in a weaker position than the fundamentalists and traditionalists, lacking powerful backing, financial resources, an effective infrastructure, and a public platform. Therefore, Western leaders should support the modernists by these means:
  • Publish and distribute their works at subsidized cost.
  • Encourage them to write for mass audiences and for youth.
  • Introduce their views into the curriculum of Islamic education.
  • Make their religious opinions and judgments available to a mass audience to compete with the fundamentalists and traditionalists, who have web sites, publishing houses, schools, institutes, and many other vehicles for disseminating their views.
  • Position modernism and secularism as counterculture options for disaffected Islamic youth.
  • Use the media and educational curricula in suitable countries to foster an awareness of their pre-Islamic and non-Islamic histories and cultures.
2. Support the traditionalists enough to keep them viable against the fundamentalists (if and wherever those are the only choices). Among the traditionalists, the West should embolden those who are the relatively better match for modern civil society: the reformist traditionalists. The West should support the traditionalists against the fundamentalists in these ways:
  • Publicize traditionalist criticism of fundamentalist violence and extremism.
  • Encourage disagreements between traditionalists and fundamentalists.
  • Discourage alliances between traditionalists and fundamentalists.
  • Encourage cooperation between modernists and reformist traditionalists.
  • Where appropriate, educate the traditionalists to debate the fundamentalists. Fundamentalists are often rhetorically superior, while traditionalists practice a politically inarticulate "folk Islam." In places such as Central Asia, traditionalists may need to be trained in orthodox Islam to be able to stand their ground against fundamentalists.
  • Increase the presence and profile of modernists in traditionalist institutions.
  • Encourage the traditionalists who support the Hanafi school of Islamic law as a way to counter the conservative Wahhabi-supported Hanbali school of Islamic law.
  • Encourage the popularity and acceptance of Sufism, a traditionalist form of Islamic mysticism that represents an open, intellectual interpretation of Islam.
3. Oppose the fundamentalists energetically by striking at the vulnerabilities in their Islamic and ideological credentials. Expose things that neither the youthful idealists in their target audience nor the pious traditionalists can condone about the fundamentalists: their corruption, their brutality, their ignorance, the bias and manifest errors in their application of Islam, and their inability to lead and to govern. The West should fight the fundamentalists in these ways:
  • Challenge their interpretation of Islam, and expose their inaccuracies.
  • Reveal their linkages to illegal groups and activities.
  • Publicize the consequences of their violent acts.
  • Demonstrate their inability to develop their countries and communities in positive ways.
  • Target the messages to youth, pious traditionalists, Muslim minorities in the West, and women.
  • Portray violent extremists and terrorists accurately as disturbed and cowardly, not as heroes.
  • Encourage journalists to investigate corruption, hypocrisy, and immorality in fundamentalist and terrorist circles.
  • Encourage divisions among fundamentalists.
One strategy holds great promise. Despite the success of radical fundamentalism in mobilizing discontented young people, especially young men, it has many features that should turn young people away. This major flaw in fundamentalist political strategy has not so far been exploited.
Radical Islam does not value young lives very highly. By manipulating youthful idealism and their sense of drama and heroics, radical Islam turns young people into cannon fodder and suicide bombers. Madrassas (the fundamentalist schools) specifically educate boys to die young, to become martyrs. If Muslim youth ever begin to look at things through a generational lens, as Western youth did in the 1960s, they may begin to ask why most suicide bombers and martyrs are under the age of 30. You don’t have to be young to strap explosives onto yourself. If it’s such a wonderful thing to do, why aren’t older people doing it?
4. Support the secularists on a case-by-case basis. The West should encourage secularists to recognize fundamentalism as a common enemy and discourage secularist alliances with anti-U.S. forces. The West should also support the idea that religion and state can be separate in Islam, too, and that the separation will not endanger the faith but, in fact, can strengthen it.
5. Develop secular civic and cultural institutions and programs. Western organizations can help to develop independent civic organizations that can provide a space in the Islamic world for ordinary citizens to educate themselves about the political process and to articulate their views.
Any strategy of this sort should be pursued with a wariness of the potential for backlash. The alignment of U.S. policymakers with particular Islamic positions could endanger or discredit the very groups and people the West is seeking to help. Partnerships that may seem appropriate in the short term, such as affiliations with conservative traditionalists, could provoke unintended consequences in the long term. To prevent this, the West needs to adhere consistently and faithfully to its core values of democracy, equality, individual freedom, and social responsibility.

Monday, April 21, 2014

Khirki jo Aakhir Khul Rahi Hai by Izhar ul Haq

Interesting Column about Jamaat

Mera Sahafi Tera Sahafi by Javed Ch

میرا صحافی۔ تیراصحافی

میرا حامد میر کے ساتھ بیس سال کا تعلق ہے‘ یہ 1994ء میں ملک کے نوجوان ترین ایڈیٹر تھے اور میں ان کا ماتحت تھا۔  یہ نوجوان باس تھے اور میں نوجوان ماتحت چنانچہ ہماری روزانہ چپقلش ہوتی تھی‘ یہ مجھے نالائق اور بدتمیز ماتحت سمجھتے تھے اور میں انھیں متکبر اور جلد باز باس۔ اس ٹکراؤ کا یہ نتیجہ نکلا میرے باس نے ٹھڈا مار کر میری لگی بندھی نوکری ختم کر دی‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ ایک دروازہ بند ہوا اور سیکڑوں دروازے کھل گئے اور میرا سفر بھی پوری رفتار سے شروع ہو گیا‘ وقت نے ہماری غلط فہمیاں دور کر دیں اور ہم ایک دوسرے کا احترام کرنے لگے‘ حامد میر بھی عام انسانوں کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہیں لیکن ان کی خوبیاں ان کی خامیوں سے زیادہ ہیں۔
یہ چوبیس گھنٹے کے صحافی ہیں‘ یہ دن رات خبر‘ اطلاعات اور معلومات کی تلاش میں رہتے ہیں‘ ہم جس اطلاع کو انتہائی خفیہ سمجھتے ہیں‘ حامد میر کو اس کی نہ صرف مکمل معلومات ہوتی ہیں بلکہ یہ اس خبر کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘ یہ تعلقات بنانے اور چلانے کے بھی ماہر ہیں‘ یہ بارہ سال سے کرنٹ افیئرز کا مقبول پروگرام کر رہے ہیں‘ لوگ ان کے پروگرام سے بعض اوقات خفا ہو کر جاتے ہیں لیکن یہ خفا لوگ چند دن بعد دوبارہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں‘ یہ بے لوث بھی ہیں‘ یہ یار باش بھی ہیں‘ یہ اپنے کام کے ساتھ مخلص بھی ہیں‘ یہ بے خوف اور نڈر بھی ہیں اور میرے ذاتی خیال میں ان کے بارے میں پھیلائی گئی زیادہ تر منفی خبریں بھی غلط ہیں‘ یہ اگر کرپٹ ہیں یا یہ کسی دوسرے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں تو پھر ہم پیشہ اور ہم شہر ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے تھا مگر آج تک حامد میر کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا‘ حامد میر کل وقتی صحافی ہیں‘ یہ رپورٹر تھے‘ آج بھی ان کے اندر رپورٹر زندہ ہے‘ یہ کالم نویس بھی ہیں اور یہ ملک کے نامور سیاسی اینکر بھی ہیں‘ یہ پاکستان میں ’’ہاٹ پولیٹیکل شو‘‘ کے بانی ہیں‘ آج ملک کے تمام نیوز چینلز پر تین سیاستدانوں کے ساتھ ٹاک شو نشر ہوتے ہیں‘ یہ ’’فارمیٹ‘‘ حامد میر نے شروع کیا تھا اور یہ فارمیٹ آج تمام ٹیلی ویژن چینلز کا حصہ ہے لہٰذا آپ پاکستان کی صحافت کو جس بھی زاویے سے دیکھیں‘ آپ حامد میر کو ’’اگنور‘‘ نہیں کر سکیں گے‘ آپ حامد میر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
یہ حامد میر ہفتہ 19 اپریل کی شام سوا پانچ بجے کراچی ائیر پورٹ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر گولی کا نشانہ بنے‘ یہ ناتھا خان پل کے قریب پہنچے تو ایک حملہ آور نے ان کی گاڑی پرفائر کھول دیا‘ حامد میر زخمی ہو گئے‘ ڈرائیور نے گاڑی بھگائی تو حملہ آور نے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ان کا پیچھا کیا اور چلتی گاڑی پر بھی فائرنگ کی‘ حامد میر کو چھ گولیاں لگیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی بچا لی لیکن حامد میر پر حملے نے ملک میں ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا‘ عامر میر ان کے بھائی ہیں‘ یہ بھی صحافت سے وابستہ ہیں‘ عامر میر نے الزام لگایا‘ یہ حملہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیر الاسلام نے کروایا‘ عامر میر کے بقول ’’حامد میر نے ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کرایا تھا‘ جس میں انھوں نے اعلان کیا تھا ‘ مجھے آئی ایس آئی سے خطرہ ہے اور اگر مجھے قتل کیا گیا تو اس کی ذمے داری آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام پر ہو گی‘‘ عامر میر کے اس الزام کے بعد جیوٹیلی ویژن نے جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر اسکرین پر لگائی اور انھیں ’’مجرم‘‘ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا‘ ہم حامد میر اور عامر میر کے الزام کو نہیں جھٹلاتے‘ ملکی قانون کے مطابق متاثرہ فریق کسی بھی شخص یا ادارے پر شک کا اظہار کر سکتا ہے‘ یہ اس ادارے یا شخصیت کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوا سکتا ہے لیکن یہ شخص یا ادارہ مجرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تفتیشی ادارے اور عدلیہ کرتی ہے‘ قانون‘ عدل اور آئین یہ کہتا ہے‘ مجرم جب تک مجرم ثابت نہیں ہوتا وہ اس وقت تک بے گناہ تصور ہوتا ہے اور کسی شخص یا کسی ادارے کو اس شخص کو مجرم قرار دینے کا حق حاصل نہیں۔ میں دس سال جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ رہا‘ مجھے ان دس برسوں میں جنگ گروپ کے سینئرز نے سکھایا ’’صحافی کا کام رپورٹ کرنا ہوتا ہے‘ کسی کو مجرم ڈکلیئر کرنا نہیں‘ صحافی ہمیشہ ’’نومینز لینڈ‘‘ پر کام کرتا ہے‘ یہ فریق نہیں بنتا‘‘۔
ہمیں یہ بھی سکھایا گیا تھا’’ صحافی کو کبھی اپنی حدود سے باہر نہیں نکلنا چاہیے‘‘ میں نے جنگ گروپ کے ساتھ وابستگی کے دور میں ہزاروں کالم لکھے‘ میں ان کالموں میں جب بھی حدود کراس کرنے کی کوشش کرتا تھا یا میں فریق بنتا تھایا میں صرف افواہ یا شک کی بنیاد پر رائے دینے کی کوشش کرتا تھا‘ میرا کالم ایڈٹ کر دیا جاتا تھا‘ میں نے اس سلوک پر بار بار احتجاج کیا مگر انتظامیہ نے کبھی میرے احتجاج کو درخور اعتناء نہیں سمجھا‘ ان کا کہنا تھا ’’رول از رول‘‘ ہم اپنے عزیز ترین کالم نگار کے لیے بھی صحافتی اصول نہیں توڑ سکتے لیکن حامد میر پر حملے کے بعد اسی ادارے نے اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی دھجیاں اڑا دیں‘ میں بھی فوج اور آئی ایس آئی کا ناقد ہوں‘ ملک کا شاید ہی کوئی باشعور صحافی فوج کے سیاسی کردار اور مسنگ پرسنز کے ایشو پر آئی ایس آئی کی حمایت کرے گا لیکن ہم اس تنقید کے دوران صحافتی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس ’’ہم‘‘ میں حامد میر بھی شامل ہیں‘ یہ بھی تمام تر جرأت اور بہادری کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ یہ کبھی تنقید کے سر سے تعریف کا دوپٹہ نہیں اترنے دیتے ہیں مگر حامد میر کا ادارہ دو دن تک مسلسل ملک کے معتبر ادارے کے منہ پر کیچڑ ملتا رہا‘ یہ صحافتی اصولوں کی بھی خلاف ورزی تھی اور قانون‘ آئین اور اخلاقیات سے بھی انحراف تھا۔
ہم صحافتی برادری کو تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا‘ اس کمیشن سے جلد اور جامع تفتیش کی ڈیمانڈ کرنی چاہیے تھی‘ ہمیں ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے تھا اور مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں بھی کھڑا کرنا چاہیے تھا لیکن حامد میر کے ادارے نے حامد میر کی ایف آئی آر سے قبل اپنی اسکرین پر ایف آئی آر درج کر دی‘ اس نے اپنے نیوز روم کو تفتیشی سینٹر بنا دیا‘ اپنے اینکر پرسنز کوچیف جسٹس کا درجہ دے دیا اور آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام کو مجرم ڈکلیئر کر کے انھیں سزا بھی سنا دی‘ یہ کہاں کی صحافت ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہ وہ رویہ ہے لوگ جس کی وجہ سے صحافی کو بلیک میلر اور صحافت کو زرد صحافت کہتے ہیں‘یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
حامد میر پر حملہ پوری صحافت پر حملہ ہے‘ یہ چھ گولیاں صرف حامد میر کو نہیں لگیں‘ یہ ملک کے 80 ہزار صحافیوں کے دل پر لگی ہیں اور ہم اس وقت اتنی ہی تکلیف محسوس کر رہے ہیں جتنی حامد میر کو ہو رہی ہے لیکن جو توپ حامد میر کے ادارے نے حامد میر کو سامنے رکھ کر داغی اس کی تکلیف کا ازالہ کون کرے گا؟ اس کا جواب کون دے گا؟ ہم صحافی آج اس توپ کی وجہ سے شرمندہ ہیں‘ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ ذمے دار صحافت ہے؟‘‘ اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا‘ حامد میر ہمارا بھائی بھی ہے‘ دوست بھی اور کولیگ بھی۔ اس کے لیے جان بھی حاضر ہے لیکن ہم اس کے ادارے کے رویئے کو کہاں رکھیں‘ ملک میں روز صحافیوں اور صحافتی اداروں پر حملے ہوتے ہیں‘ ایکسپریس گروپ پر چھ حملے ہوئے اور ان حملوں کے دوران چار لوگ شہید ہو ئے‘ رضا رومی پر حامد میر سے بڑا حملہ ہوا تھا‘ اس حملے میں ان کا صحافتی کیریئر تباہ ہو گیا‘ اے آر وائی‘ سماء اور وقت ٹی وی پر بھی حملے ہوئے لیکن جنگ گروپ نے ان حملوں کی خبر تک شایع نہیں کی‘ یہ ہمیشہ اس قسم کے حملوں پر نجی ٹی وی کے دفتر پر حملہ یا نجی ٹی وی کے اینکر پرسن پر حملہ قسم کی سنگل کالم خبر شایع کرتا تھا۔
ہم سب لوگ جنگ اور جیو گروپ کے صحافیوں‘ رپورٹرز اور اینکرپرسنز کو اپنے پروگراموں میں بلاتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو کسی ادارے کی پراپرٹی نہیں سمجھتے‘ ہم انھیں اپنا بھائی‘ دوست اور کولیگ سمجھتے ہیں اور اس حیثیت سے انھیں پروگراموں میں بھی بلاتے ہیں اور عوام تک ان کے تاثرات بھی پہنچاتے ہیں لیکن حامد میر کا ادارہ کسی دوسرے ادارے کے کسی صحافی کا نام تک لینا اپنی توہین سمجھتا ہے‘ ہم آج بھی حامد میر کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن کیا حامد میر کا ادارہ رضا رومی کے ساتھ کھڑا تھا؟ کیا ان لوگوں نے اس کے بارے میں کلمہ خیر کہا؟ میری حامد میر کے ادارے سے درخواست ہے‘ آپ اس واقعے ہی سے کچھ سیکھ لیں‘ آپ تفتیشی ٹیم یا عدالت نہ بنیں‘ آپ صحافتی ادارہ بنیں‘ یہ فیصلے سنانا ایک خطرناک ٹرینڈ ہے ‘ اس سے صحافت کو بھی نقصان ہو گا اور ملک کو بھی۔ دوسرا‘ آپ مہربانی فرما کر صحافیوں کو صرف صحافی رہنے دیں‘ انھیں میرا صحافی یا تیرا صحافی نہ بنائیں‘ ہم سب ایک دوسرے کے کولیگ‘ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ میں حامد میر کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوں اور حامد میر کا کندھا میرے کندھے کے ساتھ رہے گا‘ آپ کندھے کو کندھے کے ساتھ رہنے دیں انھیں کاٹنے کی کوشش نہ کریں‘ آپ صحافت کو نجی ٹی وی یا نجی اخبار میں تبدیل نہ کریں‘ ہمیں حامد میر اور حامد میر کو ہمارا نام لینے دیں تا کہ ملک میں صحافت اور صحافی دونوں زندہ رہیں ورنہ دوسری صورت میں میرا صحافی بچے گا اور نہ ہی تیرا صحافی اور اگر صحافی نہ بچے تو آپ ادارے کیسے چلائیں گے؟ اور آخری مشورہ آپ الزامات کو مہم بنانے سے قبل یہ ضرور سوچ لیا کریں ہمارے الزامات سے اگر کسی ناپسندیدہ شخص یا ادارے نے فائدہ اٹھالیا اور ملک تباہ ہو گیا تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ تاریخ ہمیں کس نام سے یاد کرے گی‘ صحافت اور صحافی ملکوں کے لیے ہوتے ہیں‘ اگر ملک ہی نہ رہا تو صحافی اور صحافت کہاں رہے گی؟

Sunday, April 20, 2014

Khawarij by Haroon ur Rasheed

Jisay Sharam Nahi, wo jo marzi karey

Jo Bo'o Gai Wuhi Kaato Gai by Izhar ul Haq

Phannay Kahn


Assal Chehra by Izhar ul Haq

Asal Auqat

Hamid Mir Qatilana Hamla by Talat Hussain

حامد میر پر قاتلانہ حملہ

حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہم سب کے لیے تشویش ناک بھی ہے اور ملک کے لیے شرمناک بھی۔ خدا نے اس کی زندگی بچا لی ورنہ نشانہ لگانے والوں نے اپنی طرف سے تیاری مکمل کی ہوئی تھی۔ اگر ڈرائیور بر وقت ذہانت نہ دکھاتا اور سڑک کے پار دکان پر متعین گارڈ فائرنگ نہ کرتا تو حملہ آور اپنے گھناؤنے عزائم میں کامیاب ہو چکے ہوتے ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح  ہی ا یسی پھیلی جیسے اس کو پھیل جانا تھا۔ مگر اس وقت حملے کے ایک دن بعد یہ اندوہناک واقعہ ایک اور خطرناک تنازعے کا باعث بن گیا ہے۔
تنازعے کا آغاز حامد میر کے بھائی عامر میر کے اس الزام سے ہوا کہ جان لینے کی اس کوشش کے پیچھے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور اس ادارے کے چند ایک افسران ملوث ہیں۔ اس بیان کی بنیاد انھوں نے اپنے بھائی کا ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان اور اس کی طرف سے اپنے قریبی حلقہ احباب کو پیشگی آگاہی کو بنایا ۔ اگر یہ الزام بین السطور لگایا جاتا تو شاید ایسا خطرناک ثابت نہ ہوتا کہ جیسا اس وقت ہو رہا ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے اخبارات نے اس کو خوب اچھالا۔ ہندوستان کے ذرایع ابلاغ کی تو عید ہوگئی۔
ان کی پرانی عادت عود کر آئی اور اس وقت پاکستان کے ریاست کے وہ ادارے جو دفاع کا ہراول دستہ سمجھے جاتے ہیں ہندوستان کے اخبارات اور چینلز کی بدترین زد میں ہیں۔ یہ معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا اگر عامر میر کے بیان کے بعد اس کو بڑھانے کا کام دوسروں نے نہ اٹھا لیا ہوتا۔ اس الزام کے سامنے آتے ہی تجزیوں اور گواہیوں کا طوفان اُمڈ پڑا جو ابھی تک جاری ہے۔ محترم انصار عباسی نے ڈی جی آئی ایس آئی کے استعفی کا مطالبہ کر دیا۔ اور دوسروں کی طرح عمومی مسائل کو حوالہ بناتے ہوئے عامر میر کے الزام کو ایسے اتنا قوی کر دیا کہ جیسے یہ نا قابل تر دید ثبوت ہو ۔
حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش اتنی قبیح اور افسوس ناک ہے کہ اس کے محرکات میں سے کسی ایک کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے خاندان کے ممبران کے اس حق سے بھی انکار نہیں کہ وہ اپنے تمام خدشات کا کھل کر اظہار کریں۔ ان خدشات کی حقیقت سے قطع نظر ان میں اٹھائے گئے زاویے اور سوال ان جواب طلب معاملات کا حصہ ہیں۔ جو اس واقعہ نے نمایاں کیے ہیں۔ مگر یہ تمام تنازعہ گھمبیر صورت حال میں تبدیل ہو چکا ہے جو اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہو گی۔ عامر میر نے پاکستان کی ریاست کے اہم ترین عہدے داران میں سے ایک پر براہ راست سنگین الزام لگایا ہے۔ وہ ایک ذہین صحافی ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسندی کو تجزیاتی اور معلوماتی پہلوئوں سے سمجھنے والے بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں۔
میں ان کا ہر کالم پڑھتا ہوں اور ہمیشہ موضوع پر ان کی گہری گرفت کی داد دیتا ہوں، ان کو یقینا معلوم ہو گا کہ الزام چاہے کیسا ہو اس میں اور ثبوت میں سات جہانوں کا فرق اور فاصلہ موجود ہے۔ شک اور شبے کی بنیاد بھی کسی ایسی حقیقت پر مبنی ہونی چاہیے کہ سننے والا فوری طور پر اس کی صحت سے انکار نہ کر پائے۔ ثبوت اور وہ بھی اس قسم کے الزام کو سچا ثابت کرنے کے لیے تو ایسا ہوتا ہے کہ سامنے آتے ہی معاملہ مکمل طور پر واضح ہو جائے۔ ہم صحافی برسوں تمام تر کوشش کے باوجود اپنے اسلوب کی اتنی سی ضرورت پورا کرنے میں سر توڑ کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جس کے مطابق لکھی جانے والی معلومات کا ایک نہیں بلکہ دو ذرایع سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔
قتل کی سازش کا بیان دینے کے بعد اس کو ثابت کرنا اب ان کا اپنا درد سر ہے۔ میں اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا کہ الزام کے ہدف کو اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے۔ محترم انصار عباسی کا نقطہ نظر سر آنکھوں پر لیکن ڈی جی آئی ایس کے استعفی کا مطالبہ میری سمجھ سے بالا ہے۔ قبل از واقعہ خدشے کا اظہار قانونی چارہ جوئی کے لیے بھی کمزور بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے توسط کلیدی عہدہ داران کو ذمے داریاں چھوڑنے کی خواہش، غم کے اظہار کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے کسی روایت یا ضابطے کی تعمیل نہیں۔ اگر اس مطالبے کو مان لیا جائے تو کل کوصدر، وزیر اعظم، آرمی چیف، نیول چیف، ایئر فورس چیف، گورنر، وزراء سب کسی نہ کسی واقعے سے شک کی بنیاد پر جڑ جانے کے امکان کے زیر اثر بیٹھے ہوں گے ۔
ویسے بھی ان سطروں کے لکھے جانے تک لگائے گئے الزامات کی سمت میں قانونی چارہ جوئی کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوئی تھی۔ حامد میر کا اپنا بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ان کی طرف سے اس تمام واقعے پر کیا نقطہ نظر اپنا یا جائے گا اس کا سب کو بے چینی سے انتظار ہے۔ نیک خواہش رکھنے والے تمام دوستوں کے جذبات اپنی جگہ پر، قانونی کارروائی حامد میر کی ہدایات پر ہو گی۔ بد قسمتی سے حامد میر کے بولنے سے پہلے ہی اس تمام واقعے کو ایک خاص سمت موڑ کر ان کے ہاتھ بھی باندھ دیے گئے ہیں۔ جس وقت یہ الزامات اور تجزیئے کیے جا رہے تھے۔ قاتلانہ کوشش کا اصل ہدف زندگی اور موت کی کشمکش میں عمل جراحی سے گزر رہا تھا۔
صحتیابی کے عمل کے آغاز کے بعد اب کیا حامد میر تحقیق کے لیے کوئی اور زاویہ یا اشارہ بتلا پائیں گے۔ اگر وہ اپنے برادر اور دوستوں کی طرف سے حتمی بیانات کو محض ایک امکان کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں تو بھی ڈی جی آئی ایس آئی پر لگنے والی تہمت ایک سنجیدہ اور خوفناک مسئلے کے طور پر موجود رہے گی۔ آئینی طور پر کلیدی اداروں کی تضحیک پر پابندی ہے۔ دنیا بھر میں پائی جانیوالی بہترین پیشہ ورانہ روایات اس قسم کے ذاتی حملوں ( چاہے ان کا ہدف کوئی سویلین ہو یا عسکری نمایندہ، کوئی عام شہری ہو یا خاص شخصیت) کی ممانعت کرتی ہیں۔ اور پھر اگر کل کو تحقیقات کے نتیجے میں کوئی ایسا گروپ پکڑا جاتا ہے جس نے حامد میر کی زندگی چھیننے کی کوشش کی ہے تو پچھلے چھتیس گھنٹوں میں ریاستی اداروں کو ملوث کرنے کی کوشش کا دفاع کیا ہوگا۔
مجھے حکومت کی طرف سے ان الزامات پر کی جانے والی خاموشی پر بھی حیرت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام کے جواب میں بیان آئی ایس پی آر کی طرف سے نہیں وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے جاری ہونا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم کے تابع ہیں آرمی چیف کے نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر بناوٹی خوش مزاجی کے باوجود نو از لیگ اور ریاستی اداروں کے تعلقات ایسے رشتہ داروں کی طرح ہیں۔ جو دوسرے کو مشکل میں دیکھ کر کف افسوس تو ملتا ہے مگر اپنے منصب کے مطابق ذمے داری نہ اٹھا کر اصل میں دوسرے کو سبق سکھا رہا ہوتا ہے۔ حامد میر کے قتل کے گرد گھومنے والا تنازعہ اب صرف مجرموں کی گرفتاری سے طے ہو گا۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

Friday, April 18, 2014

Prime Minister to Kakul by Talat Hussain

وزیراعظم کا سفر کاکول

لاہور میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف (جو اِس وقت بھی وزیر اعلیٰ ہیں) کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات میں تب کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ موضوع گفتگو بنا تو جناب شہباز شریف نے اس اقدام کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے جنرل صاحب کو جمہوریت پسند ، عقل مند ، دانشور وغیرہ وغیرہ جیسے کئی تمغے چار چھ جملوں میں نواز دیے۔ جو اس سے کہیں زیادہ تھے جو شاید جنرل کیانی کبھی اپنے منہ سے مانگتے۔ وزیر اعلی پنجاب کی دوسری منطق یہ تھی کہ وہ صدر زرداری پر بھروسہ نہیں کرتے۔ نہ جانے نیا فوجی جنرل کس قسم کا آ جائے ، جنرل کیانی دیکھے بھالے تھے، نئی جمہوریت کی نشوونما میں حصہ ڈالنے پر فلسفیانہ طور پر راغب تھے۔ لہذا ان کی موجودگی سب کو قابل قبول تھی۔
نواز لیگ کے دوسرے سرکردہ لیڈران جیسے، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار وغیرہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ ظاہر ہے یہ سب اس قسم کی سوچ نہ اپناتے اگر قائد اول جناب میاں نواز شریف خود اس جانب مائل نہ ہوتے۔ نواز لیگ میں میاں نواز شریف کا دبدبہ اتنا ہے کہ ان سے ہلکی پھلکی اختلاف رائے تو جائز ہے مگر بڑے معاملات پر ان کی جنبش ابرو کی اطاعت تمام ایمانی قوت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر میں اس وقت بہت حیران ہوا جب جنرل کیانی کو عملاً پورے عہدے کی مدت کے برابر توسیع ملی تو نواز شریف کی طرف سے رد عمل بالواسطہ ناگواری کا تھا۔ اگر مجھے یاد پڑتا ہے تو انھوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں نے جنرل کیانی کو پیپلز پارٹی نواز جرنیل کے طور پر زیر بحث لانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور فوج کے درمیان ہونے والی سرد جنگ میں نواز لیگ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ اندر خانے چوہدری نثار اور شہباز شریف نے جنرل کیانی کے ساتھ مشاورت کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ جس کے بارے میں اخبارات میں درجنوں خبریں چھپنے کے باوجود کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ نواز لیگ نے سابق جنرل کی مدت ملازمت کی توسیع پر اندر خانے جو پالیسی بنائی ہوئی تھی وہ ان کے ذرایع ابلاغ میں چھپنے والے نقطہ نظر سے بالکل مختلف تھی۔
اندر کچھ اور باہر کچھ کے اس لائحہ عمل نے نواز لیگ کو ان بہت سے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جن کا تعلق فوج کے ساتھ تعلقات سے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا معاملہ اس دہری پالیسی کا ایک عکس ہے۔ نواز لیگ کے اراکین یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے فوج سے اس قسم کا کوئی وعدہ کیا تھا۔ میرے علم کے مطابق نواز لیگ کی قیادت جنرل مشرف کے پاکستان واپس آنے کے بعد عمومی طور پر اور 2013ء کے الیکشن کے بعد خصوصی طور پر فوج کے ساتھ گہرے مذاکرات کرکے یہ پیغام دے چکی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے مسئلے کا حل باہمی اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ اس باہمی اتفاق رائے میں مقدمہ بازی، سزا اور کھلی ہزیمت جیسے زاویے نہیں تھے۔ ایک موقع پر تو شاید نواز لیگ کی قیادت اسمبلی کے ذریعے قرارداد پاس کروا کے جنرل پرویز مشرف کی جان بخشی کا رستہ کھولنے کا بھی سوچ رہی تھی۔ اس قسم کے پیغامات با اثر بین الاقوامی قوتوں کو بھی دے دیے گئے تھے۔ اس بات چیت کے نتیجے میں اس معاملہ پر نواز لیگ کے اشارے آرمی کی تمام اعلی قیادت تک پہنچا دیے گئے۔ آرمی کی آدھی درجن کے قریب کور کمانڈرز کی میٹنگز میں یہ ممکنہ حل زیر بحث رہا۔ جس پر سب نے اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ مگر پھر یہ پالیسی یکدم تبدیل ہو گئی۔ معافی کو مواخذہ میں تبدیل کردیا۔ درگزر تعزیر میں تبدیل ہوگیا۔ باضابطہ حل، با ضابطہ استغاثہ کی شکل اختیار کرگیا۔
نواز لیگ کی پالیسی میں یہ تبدیلی شاید نئے آرمی سربراہ کے لیے حیران کن تھی۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی نئی تعیناتی کا آغاز انتہائی خوشگوار ماحول میں کیا۔ میاں نواز شریف نے ان کو سابق آرمی چیف کی طرف سے دی گئی فہرست میں اپنے فیصلے کے مطابق منتخب کیا۔ جس کی وجہ سے سابق چیف آف جنرل اسٹاف آرمی چیف بننے کے بجائے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ جنرل راحیل شریف آرمی کی اس قیادت کا حصہ تھے جن کو جنرل مشرف کے مقدمے سے متعلق دی جانیوالی نواز لیگ کی ضمانتوں کا علم تھا۔ ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ یہی فرض کرتا کہ یہ فائل اب جلد بند ہو جائے گی ۔ مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ فوج نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے عدالت میں پیش ہونے کو ان کے ملک سے چلے جانے سے مشروط سمجھا ہوا تھا۔ مگر عدالت میں پیش ہونے اور مقدمے کی کارروائی شروع ہوتے ہی نواز لیگ نے وہ تمام دروازے ، کھڑکیاں بند کردیں جن میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو یہاں سے پرواز کرجانا تھا۔ عدلیہ نے اپنی طرف سے جنرل مشرف کے ملک سے باہر جانے کے معاملے کو حل کر دیا۔ اب عدالت کے فیصلے کو سیدھا پڑھیں یا الٹا وہ واضح انداز میں کہہ رہا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
میں ذاتی طور پر اور اصولی طور پر جنرل پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے بالکل خلاف ہوں۔ اگر ان پر مقدمہ بنا ہوا ہے تو انھیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقت ور حلقوں کا قانون کی گرفت سے نکل جانا عدل گستری کی روح کے خلاف ہے۔ یہ وہ ضابطہ ہے جو سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ جب پاکستان کے چند ایک خود ساختہ آزاد خیال حلقے حسین حقانی کو ملک سے باہر بھجوانے میں اتنے ہی مصر تھے جتنے وہ آج جنرل پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی کا سامنا کروانے پر ہیں۔ میں نے کھل کر ریاست کے خلاف مبینہ سازش کرنے والے ملزم کو چھوڑ دینے کی مخالفت کی تھی جب پنجاب اور مرکزی حکومت ملک کی عدالتیں اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے جمہوری ستون ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے بھیجنے کے خفیہ معاہدے کا حصہ بنے ہوئے تھے ۔ میں نے اس وقت بھی قانونی چارہ جوئی کی حمایت کی تھی۔
لہذا قضیہ میری یا پاکستان کے ہر اس شہری کی رائے کا نہیں ہے جو قانون کی سر بلندی چاہتا ہے۔ معاملہ یہ سمجھنے کا ہے کہ نواز لیگ نے جنرل پرویز مشرف کے مقدمے اور فوج کے ساتھ دوسرے معاملات پر کیسی پالیسی اپنائے رکھی ہے کہ اس وقت تمام ملک میں سیاسی چہ مگوئیوں اور افواہ سازی کی منڈی دوبارہ سے لگ گئی ہے۔ سویلین اداروں کی برتری اور ریاستی اداروں کا احتساب کرنے والوں کو اصولوں پر مسلسل کاربند ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اندر کچھ اور کہیں اور باہر کچھ اور کریں۔ ایک مقدمے پر محدب عدسے کے ذریعے توجہ اور توانائی مرکوز کریں اور اسی طرح کے دوسرے مقدمات پر قابل اعتراض لچک اختیار کریں۔ آج وزیراعظم نواز شریف کا کاکول اکیڈمی کا سفر کبھی اتنا متنازع نہ ہوتا۔ اگر انھوں نے اپنی پالیسیوں کو دہرے پن سے نجات دلا کر حقیقی اصولوں پر استوار کیا ہوتا۔

Friday, March 7, 2014

Qissa Aik Jungle ka by Talat Hussain

ایک جنگل کا قصہ اور ہماری حالت زار


www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12
یہ قصہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے مگر یہاں حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ ہر مرتبہ دہرانے کے باوجود بھی یہ نیا محسوس ہوتا ہے۔ اس مرتبہ چند تخلیقی اضافوں کے ساتھ اس کو اپنی صورت حال کے حوالے سے مزید مفصل بنایا گیا ہے، پیغام بڑا واضح ہے مگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو تحریری کمزوری پر ذمے داری ڈال د یجئے گا۔ اپنی کوتاہی ہر گز نہ سمجھئے گا۔ ہماری حسین روایت یہی ہے کہ غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے ۔
یہ قصہ ہے ایک چڑیا اور ایک چڑے کا جو شادی کے بعد دنیا گھومے اور پھر واپس اپنے وطن لوٹے ۔ یہاں کی تصویر نا قابل یقین تھی، باغات اجڑ گئے تھے، پھل سوکھ گئے تھے۔ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے زہر اگل رہے تھے۔ رنگین شاموں پر موت زدہ فضا چھائی ہوئی تھی۔ بچے کھچے جانور اور پرندے حشرات الارض کی طرح کونوں کھدروں میں منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ کوئی بربادی سی بربادی تھی۔ ان دونوں کو اپنی شادی بھول گئی اور یہ مارے مارے ہر طرف پھرنے لگے تا کہ یہ جان پائیں کہ ان کے ملک میں کیا ایسی کوئی وباء آئی کہ جس نے زندگی چھین لی۔ ہر کوئی سچ بولنے سے کترا رہا تھا۔ ایک سوکھی شاخ پر بیٹھے ہوئے الو نے اس جوڑے کے اضطراب کو جان لیا ۔ آسمان پر دو چکر لگانے کے بعد نیچے آیا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ میں تمہارا عذاب سمجھ گیا ہوں ، وضاحت میرے پاس موجود ہے کچھ دیر میں بیان کر دوں گا۔ لیکن تم دونوں کو کچھ وقت میرے ساتھ گزارنا ہو گا ‘‘۔ چڑے نے سجی سجائی چڑیا سے اجازت طلب کی۔ اور اس کے بعد دونوں الو کے ہمراہ ادھر ادھر بے مقصد گھومنے لگے۔ الو ان کو گھما کر بازار لے گیا جہاں پر چھوٹے چھوٹے سروں والے ایسے جانور موجود تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے تھے۔ ان کی موجودگی میں الو نے چڑے کی پشت پر ایک پنجہ رسید کیا اور چڑیا کو اپنے پر کے نیچے دبا لیا۔
پیشتر اس کے کہ چڑا اس ہزیمت پر تلملاتا، الو نے ببانگ دہل بیان جاری کر دیا، جس نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ۔ ’’یہ چڑیا میری بیوی ہے یہ چڑا اس کو لے اڑا تھا آج میں نے آپ سب کے سامنے اس کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ تمام بازار نے اس کی گواہی دی اور چڑے پر لعن طعن کی بارش کر دی۔ تمام تر اخلاقی قوت اور عزم کے باوجود چڑے کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہجوم پر غالب آ جاتا وہ منتوں پر اتر آیا، الو کے پاؤں پڑ گیا، اس سے معافی طلب کی اور کہا کہ اس کی دلہن جو اس کی عزت تھی واپس کر دے‘ وہ دوبارہ اس بد نصیب جگہ کا رخ نہیں کرے گا۔ الو نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا کہ چڑے کی طرح وہ بھی انصاف کا طلب گار ہے۔ باہمی فیصلہ کرنے کے بجائے اس مقدمے کو عالی مرتب بادشاہ جنگل عزت ماب ببر شیر کے پاس لیے چلتے ہیں۔ وہ ہم سب کا حکمران ہے۔ اس کے پاس قدرت بھی ہے اور طاقت بھی۔ اس سے بڑھ کہ عقل مند مشیروں کا پورا قبیلہ ہے۔ جو اپنی دانش مندی سے بادشاہ سلامت کی انصاف پسندی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ چڑے نے پہلے احتجاج کیا کہ یہ مقدمہ ہے ہی نہیں معاملہ واضح ہے، الو غاصب اور وہ خود مظلوم ہے۔ مگر حالات کی سنگینی جانتے ہوئے الو کی بات مان کر دربارکی طرف روانہ ہو گئے۔
وہاں پر اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ ببر شیر محترم تخت پر براجمان تھا۔ دونوں کی بپتا سننے کے بعد ایک گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ جنگل کے کیلنڈر کے مطابق چھ ماہ سوچتا ہی رہا۔ اسی دوران تمام درباری اور مشیران ہاتھ باندھے خود بھی مراقبے میں موجود رہے۔ چھ ماہ بعد یک دم ایک جھر جھری لیتے ہوئے ببر شیر نے نظر اٹھا لی اور کہا کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے اس پر دو کمیٹیاں بننی چاہئیں۔ تمام درباریوں نے ببرشیر کی فراست کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔ اس تباہ حال خطے میں خوشی کے یہ مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیٹیاں بننے کے بعد تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ممبران حد سے زیادہ متحرک ہو گئے ۔ ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک بند کمروں میںلمبی نشستیں کرنے کے بعد وہ ببر شیر کے محل سے نمودار ہوتے اور روزانہ کی تحقیق کے نتائج بیان کرتے۔ ہد ہد ان کے پیغامات کو اپنے سر اور چونچ کی نوکوں کو روشنائی میں ڈبوتے ہوئے تحریر ترتیب دیتے جو تمام جنگل میں پھیلا دی جاتی۔ اس انتظام کی وجہ سے کیا اونٹ اور کیا چیونٹی سب چڑے اور الو کے مقدمے میں گہری دلچسپی رکھنے لگے۔ ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کل کمیٹیاں کیا کریں گی اس مسئلے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کئی ہفتے اسی شش و پنج میں گزر گئے۔ خدا خدا کر کے کیمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کیا۔ بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کیں۔ ان گزارشات اور تحقیقاتی نتائج کو پڑھنے کے بعد بادشاہ سلامت نے فیصلہ صادر کیا کہ اس معاملے پر انتہائی سوچ و بچار کے بعد اور تفصیل میں جاننے کے بعد انھوں نے ایک اور کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بیان سنتے ہی تمام درباری خوشی سے ناچنے لگے۔
ہد ہدوں نے پھر سے لمبی لمبی تحریریں لکھیں اور عالی مرتب کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے ہر طرف منادی کرا دی کہ انصاف ہو تو ایسا ہو ورنہ نہ ہو۔ چڑا اور چڑیا ایک اور کمیٹی کا سنتے ہی چکرا کر زمین پر گر گئے۔ الو کا منہ خوشی سے پھول کر مزید بڑا ہو گیا مگر چونکہ وہ اپنے دل میں ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے بادشاہ سلامت کے سامنے دربار سے چند لمحے کی غیر حاضری کی اجازت طلب کی اور چڑیا اور چڑے کے ہاتھ پکڑ کر خوبصورت محل سے باہر اجاڑ اور بیابان سر زمین کے بیچ میں چلا گیا۔ چڑے کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ چڑیا نیم بے ہوش تھی الو نے دونوں کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور ان سے یوں مخاطب ہوا کہ میں نے ’’تم دونوں کی خواہش کو اپنے طریقے سے پورا کیا ہے۔ تم اس سوال کے جواب کے لیے ہر طرف مارے مارے پھر رہے تھے کہ تمہارے وطن میں پھیلی ہوئی ابتری کی کیا وجہ ہے۔ کوئی تمہیں خونخوار ہمسائیوں کا قصہ سناتا، کوئی قدرت کے امتحان کا ذکر کرتا، اور کوئی تمہارے آباؤ اجداد کی غلطیاں گنواتا تھا۔
کوئی تمہیں مورد الزام ٹھہراتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ تم نے اس کے جگہ کے حالات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوتے تو آج مسلسل ماتم نہ دیکھنے کو ملتا۔ مگر تم دونوں اس وضاحتوں سے مطمئن نہیں لگ رہے تھے اور سچ کی تلاش میں تھے۔ اسی جستجو کو دیکھتے ہوئے میں تمہیں سچ تک لے گیا۔ تم نے بادشاہ سلامت کی دانش مندی کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے مشیران کی حکمت عملی کی گہرائی کا اندازہ کر لیا۔ بینائی سے عاری ہد ہدوں کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا۔ غرض یہ کہ تم نے جان لیا کہ یہاں پر فیصلے کیسے ہوتے ہیں اور کون کرتا ہے۔ اس حسین سر زمین کے خوابوں کو عذابوں میں تبدیل کرنے والے یہاں کے حکمران ہیں۔ طول و عرض میں پھیلی ہوئی نحوست اور بیماری ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو یہ سب کرتے ہیں۔ اور پھر جو یہ کرتے ہیں مگر جس کے نتائج ہم سب بھگتتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر چڑا الو کی عقل مندی کا معتر ف ہو گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کر کے چڑیا کے ساتھ اڑ گیا کہ ان کے ہاں پہلا بچہ ہوا تو اس کا نام الو کا پٹھا رکھا جائے گا ۔

Mitt jaye gi Makhlooq to Insaf karo gai by Haroon Rasheed

Miyaan saab jag jao...

Wednesday, February 12, 2014

Why the World Does not Respect US by Javed Ch

دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی

www.facebook.com/javed.chaudhry
اللہ کے آخری نبیؐ کا آخری خطبہ اللہ کے آخری دین کا آخری خلاصہ تھا‘ یہ خطبہ دین بھی تھا‘ دنیا بھی ‘ معاشرت بھی ‘ آخرت بھی اور انسانیت بھی ۔ یہ خطبہ بنیادی طور پر انسان‘ انسانیت اور انسانی حقوق کا چارٹر تھا اور یہ آج بھی چارٹر ہے‘ میرا ایمان ہے‘ دنیا کا کوئی انسان اس وقت تک اچھا انسان اور دنیا کا کوئی معاشرہ اس وقت تک اچھا معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک یہ اس چارٹر پر عمل نہیں کرتا کیونکہ یہ چارٹر انسان اور انسانیت دونوں کا جوہر ہے‘ یہ دونوں کا ایٹم ‘ دونوں کی روح ہے‘ میں اس خطبے کے چند نقطے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں اور دین کے دو کروڑ سپہ سالاروں سے ایک سوال کرتا ہوں‘ کیا یہ ملک‘ کیا آپ اور آپ کی تنظیمیں اس چارٹر پر پورا اترتی ہیں‘ اگر ہاں تو میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اگر نہیں تو پھر مہربانی کر کے پارسائی کے دعوے بند کر دیجیے کیونکہ آپ اور میں دونوں نبی اکرمؐ کی حکم عدولی کے گناہ گار ہیں۔
میرے رسول ﷺ نے 10 ہجری 9 ذوالحجہ کے دن عرفات کے میدان میں کھڑے ہو کر فرمایا ’’ اے لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئیں‘ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہے جیسی تمہارے اس دن کی اور مبارک مہینہ (ذوالحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے‘ تم سب اللہ کے حضور پیش ہو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا‘‘۔ آپ اپنے گریبان میں جھانکیے اور جواب دیجیے‘ کیا ہمارے ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ ہے؟ کیا ہم اپنے محترم مہینوں اور دنوں کا احترام کرتے ہیں‘ اگر ہاں تو پھر مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں میں بم پھاڑنے والے کون ہیں اور اسکولوں پر خودکش حملے کیوں ہو رہے ہیں؟ اور محرم اور ربیع الاول کے مہینوں میں ڈبل سواری پر پابندی کیوں لگتی ہے اور موبائل سروس کیوں معطل ہوتی ہے؟ فرمایا ’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو‘ تم نے انھیں اللہ کی امان کے ساتھ نکاح میں لیا‘ یہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں‘ تم رواج کے مطابق ان کے لباس اور خوراک کا بندوبست کرو‘ اچھے سلوک کی تاکید کرو کیونکہ یہ تمہارے زیر دست ہیں‘‘ آپ اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور بتایئے‘ کیا خواتین بالخصوص بیگمات کے ساتھ ہمارا رویہ اس معیار پر پورا اترتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر اس معاشرے میں ونی اور سورا کی رسمیں کیوں ہیں؟ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنے والے لوگ کون ہیں؟ بیویوں پر انسانیت سوز تشدد کون کر رہا ہے؟ اور اس معاشرے کی عورت کو مومن عورت کا حق کون نہیں دے رہا؟۔
فرمایا ’’ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ کسی کے لیے جائز نہیں‘ یہ اپنے بھائی کے مال سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر لے‘ جو کام کرو اللہ کی رضا کے لیے کرو‘ حاکم وقت کو از خیر خواہی نصیحت کرنا‘ مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا‘ غلام کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو‘ وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو‘ اس سے غلطی ہو جائے تو اسے سزا نہ دینا اور تین بار فرمایا‘ میں تمہیں پڑوسی کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں‘ پھر فرمایا وارث کے لیے جائیداد میں حصہ ہے‘ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ ہی سرخ رنگ والے کو کالے پر اور اللہ کی نظر میں صرف متقی مکرم ہیں‘‘۔ آپ گریبان میں جھانکیے اور بتایئے‘ کیا ہم دوسرے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھ رہے ہیں‘ کیا ہم خود مسلمانوں کی جماعت میں رہتے ہیں اور کیا ہم دوسروں کو بھی رہنے دیتے ہیں؟ کیا ہمارے ماتحت‘ ہمارے ملازمین بھی ہماری طرح خوشحال ہیں؟ کیا ہمارے پڑوسی ہم سے خوش ہیں؟ کیا ہم اپنے تمام وارثوں کو حصہ دے رہے ہیں اور کیا اس معاشرے میں گورا اور کالا برابر ہیں؟ اگر ہاں تو پھر مسلمانوں کو کافر قرار دینے والے مسلمان کون ہیں‘ ہمارے ملازمین ہڑتالیں کیوں کر رہے ہیں؟ عدالتوں میں وراثت کے لاکھوں مقدمے کیوں چل رہے ہیں؟ ہمارے ہمسائے فون کر کے پولیس کو کیوں بلا لیتے ہیں؟ ‘ لوگ رنگ گورا کرنے کی کریمیں کیوں استعمال کرتے ہیں اور ہم اپنے ناموں کے ساتھ اپنے بلند مرتبت قبیلوں‘ خاندانوں اور مکاتب فکر کے حوالے کیوں لکھتے ہیں اور ملک کے علماء کرام اس دوڑ میں عام لوگوں سے آگے کیوں ہیں؟ یہ لوگ تقویٰ کے بجائے نقوی‘ بریلوی‘ نقش بندی‘ قادری‘ مشہدی‘ نجفی اور دیوبندی کو اپنی دستار کیوں بناتے ہیں؟بتائیے جواب دیجیے۔ فرمایا ’’ میرے بعد دشمن بن کر ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا‘ میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں‘ یہ تھامے رکھو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے‘ اللہ کی کتاب اور میری سنت‘‘۔
آپ اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور جواب دیجیے‘ کیا ہم ایک دوسرے کے دشمن بن کر ایک دوسرے کو قتل نہیں کر رہے‘ کیا امت آج تک قرآن مجید اور سنت پر متفق ہوئی؟ کیا ہم چودہ سو سال سے قرآن مجید کے مطالب پر نہیں لڑ رہے؟ کیا ہم سنت میں سے فرقے نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں؟ اللہ کے رسولؐ نے ہمارے لیے صرف کتاب اور سنت چھوڑی تھی لیکن ہم نے ان میں سنی‘ شیعہ‘ اہلحدیث اور بریلوی کو بھی شامل کر دیا‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی مسجد صرف مسجد تھی لیکن ہم نے اسے سنیوں‘ وہابیوں‘ شیعوں اور بریلویوں کی مسجد بنا دیا‘ ہم تو آج تک اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہؓ دنیا سے رخصتی کے باوجود زندہ ہیں یا مکمل طور پر پردہ فرما چکے ہیں‘ ہمارے نفاق کی حالت تو یہ ہے‘ ہم آج تک داڑھی اور مسواک کا سائز طے کررہے ہیں‘ ہمارے ٹخنے نماز کے دوران ننگے ہونے چاہئیں یا ڈھکے ہوئے اور پردے کے لیے برقعہ لازمی ہے یا اسکارف سے بھی کام چل جائے گا ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے‘ ہم آج تک نماز کے دوران دونوں پاؤں کے فاصلے کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ ہم سے شلوار اور پتلون کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا‘ ہم نماز کے دوران آمین کی آواز کی پچ متعین نہیں کر سکے‘ ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے صرف دینی علم کافی ہے یا پھر اس میں سائنس کی گنجائش بھی موجود ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا ’’ قتل نہ کرنا اور قرآن اورسنت کو تھامے رکھنا‘‘ لیکن ہم نے قرآن اور سنت کو اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل کی وجہ بنا لیا‘ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا یہ شریعت ہے؟ اگر نہیں تو پھر مساجد کو فرقہ واریت‘ سنت اور قرآن کو اختلافات کا ذریعہ بنانے والے لوگ کون ہیں؟ آپ مسلمان ہیں اور عالم دین ہیں تو پہلے تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد بنائیے‘ گورے اور کالے اور عربی اور عجمی کی تفریق ختم کیجیے‘ اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا دوسروں سے منسوب کرنا بند کیجیے‘ وارثوں کو پورا حصہ دیجیے اور وراثت میں اپنے حق سے زیادہ وصول کرنا بند کیجیے‘ مسجدوں اور درگاہوں کو وراثت بنانا بند کیجیے‘ پڑوسی سے وہ حسن سلوک کیجیے جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا‘ ملازموں کو معاف کرنا شروع کیجیے‘ اللہ کی رضا کو اپنے اعمال کا مرکز بنائیے‘ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا بند کیجیے‘ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کیجیے اور اللہ کے رسولؐ نے آخری خطبے میں چار مہینوںکو احترام کے مہینے قرار دیا تھا‘ کم از کم ان مہینوں میں نفاق اور نفرت کا کاروبار بند کیجیے‘ ان مہینوں کو اتنا احترام دے دیجیے کہ ریاست کو موبائل فون بند کرنا پڑیں‘ ایمرجنسی لگانا پڑے‘ پولیس تعینات کرنا پڑے اور نہ ہی ڈبل سواری پر پابندی لگانا پڑے اور مسلمانوں کی جان‘ مال اور عزت کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیجیے اور اس کے بعد میرے جیسے گناہ گاروں کی اصلاح فرمایئے‘ ہم جیسے دنیادار آپ کے سائے میں بیٹھنا عبادت سمجھیں گے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ اللہ کے آخری نبیؐ کا آخری خطبہ دنیا کا عظیم چارٹر تھا لیکن ہم لوگ اس پورے چارٹر کو اپنی ذات اور اپنے معاشرے پر نافذ کرنے کے بجائے اس میں سے صرف سود کا حصہ اٹھاتے ہیں اور ریاست کو حکم دیتے ہیں ’’آپ فوری طور پر بلاسود بینکاری شروع کردیں‘‘ سود اسلام میں حرام ہے اور ہم جب تک اسے حرام نہیں سمجھتے ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا لیکن کیا عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنا‘ مزارعوں کو غلام بنا کر رکھنا‘ خواتین کی شادی قرآن مجید سے کر دینا‘ معصوم بچیاں ونی کر دینا‘ نسل اور خاندان کی بنیاد پر انسانوں کو اچھا یا برا سمجھنا‘ مسجد‘ درگاہ اور مزار کو وراثت بنا لینا‘ کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دینا‘ عبادت کو اپنی اہلیت سمجھ لینا اور دوسروں کے قتل کے فتوے جاری کر دینا‘ کیا یہ حلال ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟ ہمارے رسولؐ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا لیکن ہم پچاس پچاس ہزار مرتبہ انسانیت کے قتل کے بعد بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں‘ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوسفیانؓ کے گھر میں پناہ لینے والوں کو پناہ دی تھی لیکن ہم مسجدوں میں بیٹھے مسلمانوں کو پناہ نہیں دیتے‘ اللہ کے رسولؐ نے آخری خطبے میں قتل معاف کر دیے تھے اور ان قتلوں میں ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا قتل بھی شامل تھا مگر ہم صرف شناختی کارڈ دیکھ کر دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں‘ کیا یہ شریعت ہے اور کیا ہم اس ملک میں یہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ خدا کو مانیں اسلام صرف تلوار‘ کوڑا اور پتھر نہیں تھا‘ یہ صرف داڑھی‘ تسبیح‘ سجدہ اور روزہ بھی نہیں تھا‘ یہ برداشت‘ انکسار‘ حلیمی‘ شائستگی‘ توازن‘ فرائض‘ عدل اور احترام کا مذہب تھا لیکن ہم نے اس سے عدل‘ فرض‘ توازن‘ شائستگی‘ حلم‘ انکسار اور برداشت نکال دی‘ہم نے انسانیت کا چارٹر الماری میں بند کر دیا اور پتھر‘ کوڑے اور تلوار میز پر رکھ دیے اور ساتھ ہی ہم حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ’’ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی‘‘ ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم یہ تک نہیں جانتے ہم نے جب اپنے رسولؐ کے احکامات کی عزت نہیں کی تو دنیا ہماری عزت کیوں کرے گی؟