Saturday, December 21, 2013

BeHisaab Ishq by Javed Ch

وہ بازار سے گزر رہے تھے‘ مولوی صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی‘ ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی‘ دکاندار وارفتگی کے عالم میں خاتون کو دیکھ رہا تھا‘ وہ جس جنس کی طرف اشارہ کرتی تھی‘ دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھا‘ وہ اس وقت تک وہ جنس تھیلے میں ڈالتا جاتا تھا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی تھی‘ دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھا دھند جنس نکالنے لگتا تھا‘ یہ عجیب منظر تھا‘ دکاندار وارفتگی کے ساتھ گاہک کو دیکھ رہا تھا‘ گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا اور دکاندار الہ دین کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا‘ خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا‘ ’’چلو بس کرو‘ آج کی خریداری مکمل ہو گئی‘‘ دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کیے‘ یہ تھیلیاں بڑی بوری میں ڈالیں‘ بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے کہا ’’ چلو زبیدہ میں سودا تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں‘‘ خاتون نے نخوت سے گردن ہلائی اور پوچھا ’’ حساب کتنا ہوا‘‘ دکاندار نے جواب دیا ’’ زبیدہ عشق میں حساب نہیں ہوتا‘‘ خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی۔
دکاندار بھی بوری اٹھا کر چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا‘ مولوی صاحب یہ منظر دیکھتے رہے‘ دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیاتو مولوی صاحب دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے‘ شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے‘ دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا‘ مولوی صاحب نے دکاندار کو قریب بلایا اور اس سے پوچھا ’’ یہ خاتون کون تھی‘‘ دکاندار نے ادب سے ہاتھ چومے اور عرض کیا ’’ جناب یہ فلاں امیر خاندان کی نوکرانی ہے‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا ’’ تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا‘ پھر اس سے رقم بھی نہیں لی‘ کیوں؟‘‘ دکاندار نے عرض کیا ’’ مولوی صاحب میں اس کا عاشق ہوں اور انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر یہ اس سے حساب نہیں کر سکتا‘‘ دکاندار کی بات سیدھی مولوی صاحب کے دل پر لگی‘ وہ چکرائے اور بے ہوش ہو کر گر گئے۔
شاگرد دوڑے‘ مولوی صاحب کو اٹھایا‘ ان کے چہرے پر عرق گلاب چھڑکا‘ ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے ‘ مولوی صاحب نے بڑی مشکل سے آنکھ کھولی‘ دکاندار گھبرایا ہوا تھا‘ وہ مولوی صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا ’’ جناب اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا ’’ تم میرے محسن ہو‘ تم میرے مرشد ہو کیونکہ تم نے مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق دیا‘‘ دکاندار نے حیرت سے پوچھا ’’جناب وہ کیسے؟‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا ’’ میں نے جانا‘ تم عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بے گانے ہو جب کہ میں اللہ کی تسبیح بھی گن کر کرتا ہوں‘ میں نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن کر کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے عشق کا دعویٰ کرتا ہوں‘ تم کتنے سچے اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں‘‘ مولوی صاحب وہاں سے اٹھے‘ اپنی درگاہ پر واپس آئے اور پھر اپنے مرشد حضرت شمس تبریز کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول لکھے‘ ان اصولوں میں ایک اصول بے حساب اطاعت بھی تھا‘ یہ مولوی صاحب مولانا روم تھے‘ یہ پوری زندگی اپنے مریدوں کو بتاتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو‘ اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو‘ اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو‘ یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہ کل عشق الٰہی ہے۔
ملتان میں ہمارے ایک بزرگ ہیں شیخ صاحب‘ یہ زندگی کا بڑا حصہ مدینہ منورہ میں گزار کر ملتان تشریف لائے‘شیخ صاحب کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے‘ یہ مجھ پر خصوصی مہربانی فرماتے ہیں‘ میں ان کے فرمان پر ان سے ملاقات کے لیے ملتان بھی گیا‘ شیخ صاحب نے خصوصی مہربانی فرمائی‘ میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی‘ مجھے اس کے بعد شیخ صاحب کے پیغامات ملتے رہتے ہیں‘ یہ اپنے خصوصی مریدین کو بھی میرے پاس اسلام آباد بھجواتے رہتے ہیں اور یہ اپنے پیغامات بھی ریکارڈ کر کے مجھے ای میل کرا دیتے ہیں‘ میں نے ان کے پیغامات سے بہت کچھ سیکھا‘ عشق رسولؐ شیخ صاحب کا خصوصی روحانی فلسفہ ہے‘ یہ سمجھتے ہیں ہم نے اگر عشق رسولؐ کی معراج پا  لی تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیںگی‘ میں شیخ صاحب سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے‘ یہ ہمارا خالق بھی ہے اور روز قیامت کا مالک بھی۔
آپ خودفیصلہ کیجیے‘ دنیا کی یہ سب سے بڑی سچائی‘ سب سے بڑا خالق اور سب سے بڑا مالک جس ہستی کو اپنا محبوب کہتا ہو وہ ہستی کتنی بڑی ہو گی اور ہم اگر خالق کے محبوب سے عشق کریں گے تو ہمارا خالق ہم سے کتنا خوش‘ ہم سے کتنا راضی ہو گا؟ میں شیخ صاحب کے فلسفے سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں مولانا روم کے عشق کے چالیس اصولوں کو بھی روحانی حقیقت مانتا ہوں لیکن اس کے باوجود میرے دل میں کبھی کبھی عجیب گمان اٹھتے ہیں‘ میرا دنیاداری میں الجھا ہوا دماغ انتہائی نامعقول سوال اٹھاتا ہے اور میں کئی کئی دنوں تک ان سوالوں کی کرچیاں چنتا رہتا ہوں‘مثلاً میرا دنیاوی ذہن اکثر پوچھتا ہے‘ یہ دنیا اگر بری ہے‘ یہ اگر گھٹیا جگہ ہے اور یہ اگر مصیبتوں کا گھر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے اچھی مخلوق یعنی انسان کو اس گھٹیا اور بری جگہ کیوں بھجوایا‘ ہو سکتا ہے ہم گناہ گاروں کے لیے یہی جگہ مناسب ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے نبی‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے محبوبؐ تو عظیم ہستیاں ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کی عظمت‘ ان کے تقدس کی قسمیں کھاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کو مصیبت‘ آزار‘ خرابی اور غلطیوں سے لتھڑی اس زمین پر کیوں بھجوادیا؟ یہ ہستیاں اس زمین اور ہم جیسے چھوٹے اور ناقص ایمان والے انسانوں کو ’’ڈیزرو‘‘ نہیں کرتی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کو اس زمین پر بھی اتارااور ساتھ ہی انھیں ہم عام انسانوں کے تقاضوں کا پابند بھی بنا دیا۔
وہ بھی پانی پیتے تھے‘ کھانا کھاتے تھے‘ کپڑے اور سائبان ان کی بھی ضرورت تھے‘ وہ بھی خانگی زندگی گزارتے تھے‘ وہ بھی کھیتی باڑی‘ تجارت اور گلہ بانی کرتے تھے‘ وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں تکلیف اٹھاتے تھے‘ وہ بھی نقل مکانی اور ہجرت کرتے تھے اور وہ بھی اپنا اور اپنے لوگوں کا حق لینے کے لیے لڑتے تھے‘ ان کی رگوں میں بھی لہو دوڑتا تھا‘ وہ بھی سانس لیتے تھے‘ وہ بھی بیمار ہوتے تھے‘ وہ بھی زخم کھاتے تھے‘ وہ بھی گھبرا کر اللہ سے مدد مانگتے تھے اور تکلیف انھیں بھی تکلیف دیتی تھی‘ یہ دنیا ان میں اور ہم میں دونوں میں کامن ہے‘ ہم میں اور ان میں زندگی کے تقاضے بھی مشترک ہیں‘ وہ بھی آئے اور چلے گئے‘ ہم بھی آئے اور چلے جائیں گے ‘ میرا ناقص دماغ اکثر سوچتا ہے‘ یہ دنیا اگر واقعی بری جگہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے محبوب کو اتنی بری جگہ نہ بھجواتا اور اگر زندگی کے تقاضے بھی غلط اور برے ہوتے تو دنیا کا کوئی نبی گھر نہ بناتا‘ وہ شادی نہ کرتا‘ وہ صاحب اولاد نہ ہوتا‘ وہ بھیڑ‘ بکریاں اور اونٹ نہ پالتا‘ وہ تجارت نہ کرتا‘ وہ جنگ نہ لڑتا اور وہ کسی انسان کے پاس ملازمت اختیار نہ کرتا مگر یہ وہ تمام دنیاوی معاملات ہیں جنھیں دنیا کے تقریباً تمام انبیاء کرام نے نبھایا اور دنیا کے تمام غوث‘ قطب‘ ابدال اور اولیاء کرام نبھا رہے ہیں‘ دنیا بری نہیں‘ اس دنیا کے تقاضے اور معاملات بھی برے نہیں ہو سکتے‘ یہ برے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنی اشرف ترین مخلوق کو اس دنیا میں بھجواتا اور نہ ہی اپنے محبوب ترین نبیوں کو اس زمین‘ اس دنیا میں اتارتا مگر سوال یہ ہے پھر ایشو کیا ہے؟ ایشو صرف عشق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نبی اللہ تعالیٰ کے عشق کے سفیر تھے‘ یہ عام لوگوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان عشق کی سفارت فرماتے تھے‘ یہ ہمیں یہ بتانے کے لیے زمین پر آتے رہے تم دنیا کے سارے تقاضے پورے کرو‘ عام انسانوں کی طرح عام زندگی گزارو‘ ٹھنڈے پانی کی ٹھنڈک سے بھی لطف لو اور جنس مخالف کی قربت سے بھی لذت اٹھاؤ لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھی یاد رکھو کیونکہ اللہ کی یہ یاد‘ اللہ سے یہ عشق تمہارا وہ اثاثہ ہو گا جسے تم باندھ کر واپس اللہ کے پاس جاؤ گے‘ یہ پیغام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی زمین پر آتے رہے اور ہم عام انسانوں کے درمیان رہ کر‘ عام لوگوں جیسی زندگی گزار کر اللہ تعالیٰ کی سفارت کرتے رہے مگر ہم نے پیغام کو چھوڑ کر ان کے بشری تقاضوں کو سنت بنا دیا‘ ہم نے عشق کی بجائے محبوب کے لباس کو اپنا لیا‘ نبی اکرمؐ کی سب سے بڑی سنت اللہ تعالیٰ سے عشق ہے‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ہے‘ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے‘ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آزمائشوں پر صبر ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کا بے حساب ذکر ہے مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا بے حساب ذکر کرتے ہیں‘ دنیا کی آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں‘ اطاعت اور فرمابرداری کو معمول بناتے ہیں‘ ہر سانس کے بعد اللہ کا شکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اتنا عشق کرتے ہیں جتنا مولانا روم کا وہ دکاندار قونیہ کی اس فانی خاتون سے کرتا تھا‘ ہم زندگی میں داڑھی‘ مسواک اور تسبیح تک کا حساب رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے توقع کرتے ہیں‘ یہ ہمارے معاملے میں بے حساب ہو جائے گا‘ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ان کے حلیوں کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے توقع رکھتے ہیں‘ یہ ہمارے عیب چھپائے رکھے گا‘ آپ حساب کر رہے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی حساب ہو گا‘ آپ بے حساب ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی بے حساب ہو گا‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے عاشق ہیں تو پھر بے حساب ہو جائیں‘ آپ کو بے حساب صلہ ملے گا ‘ بے حساب کرم اور رحمتیں ملیں گی۔

Marg Bar Amreeka aur Iran by Aurya


Ghaddari k Taanay by Nusrat Javed


Geo Musharaf


Ehtajaj k Champion

میں نے پہلی دھند 1982ء میں دیکھی‘ میں اس وقت اسکول میں پڑھتا تھا‘ دسمبر کی صبح تھی‘ ہم لوگ اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے تو شہر کی تمام گلیاں‘ گھر‘ دروازے‘ موڑ اور چوک دھند میں گم تھے‘ ہم لوگ زمین کی طرف دیکھتے تھے تو گھٹنوں کے نیچے ٹانگیں نظر نہیں آتی تھیں‘ سامنے نظر دوڑاتے تھے تو تاحد نظر غبار ہی غبار تھا‘ دائیں بائیں دیکھتے تھے‘ پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے تو ہر طرف اڑتے ہوئے‘ ڈولتے ہوئے بادل دکھائی دیتے تھے اور ہم لوگ خواب کی طرح دھند کے ان بادلوں میں لپٹے ہوتے ‘ یہ میری زندگی کی پہلی دھند تھی‘ میں حیرت سے کبھی دھند کو دیکھتا اور کبھی اپنے آپ پر نظر ڈالتا تھا‘ ہم لڑکوں نے اس دن نئی گیم ایجاد کی‘ ہم لوگ دھند کو پھونک مارتے‘ ہمارے منہ سے بھی دھند نکلتی اور یہ دھند‘ دھند میں مل کر فضا میں ڈولنے لگتی‘ ہم لوگ راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اسکول پہنچے‘ اس شام پتہ چلا دھند کی وجہ سے پورے پنجاب میں بیسیوں حادثے ہوئے‘ بسیں ٹرکوں سے ٹکرا گئیں‘ وین اور ٹیکسیاں ایک دوسرے کو لگ گئیں‘ گاڑیاں فٹ پاتھوں اور لوگوں پر چڑھ گئیں‘ یہ بھی معلوم ہوا ملک میں ٹرین سروس معطل ہو چکی ہے‘ جہاز رک چکے ہیں اور دفتروں میں چھٹی کر دی گئی ہے۔
اس زمانے میں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی ٹیلی ویژن چینل نہیں ہوتا تھا اور پی ٹی وی بھی کوئی بری خبر عوام تک نہیں پہنچاتا تھا‘ خبر بلکہ اصل خبر کا ماخذ اخبارات ہوتے تھے‘ میں نے اگلے دن کے اخبارات دیکھے‘ اخبارات بھی دھند اور حادثوں کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ہمیں اگلے دن کے اخبارات صبح کے بجائے شام کو ملے تھے کیونکہ اخبارات لاہور میں آتے تھے اور دھند کی وجہ سے اس صبح اخبارات ہمارے شہر میں نہیں پہنچ سکے تھے‘ میں نے اگلے دن اپنے استاد سے پوچھا ’’ سر کیا یہ دھند پہلی بار آئی ہے‘‘ ہمارے ماسٹر جی دلچسپ شخص تھے‘ یہ منہ کے بجائے ڈنڈے اور تھپڑ سے بات کرتے تھے‘ یہ شروع میں ہمیشہ مسکراتے تھے‘ یونانی دانشوروں جیسی سنجیدہ شکل بناتے تھے‘ ہاتھ کا مکا بنا کر ٹھوڑی کے نیچے رکھتے تھے اور پھر نہایت فلسفیانہ انداز سے انتہائی نامعقول جواب دیتے تھے‘ ہم میں سے اگر کوئی بچہ اس جواب میں سے کوئی نیا سوال نکالنے کی غلطی کر بیٹھتا تھا تو وہ ٹھوڑی کے نیچے سے مکا ہٹا کر اس کے منہ‘ گردن یا کمر پر جڑ دیتے تھے‘ بچے کے منہ سے سسکی نکل جاتی تھی‘ استاد جی کو اس سسکی سے بہت پیار تھا۔
وہ ایسی سسکیاں بار بار سننا چاہتے تھے چنانچہ وہ اس بچے کو ٹھڈا بھی مار دیتے تھے اور یوں سنجیدہ گفتگو ’’ باکسنگ رنگ‘‘ میں تبدیل ہو جاتی تھی‘ ہم لوگ ماسٹر جی کے ہاتھوں روز پٹتے تھے لیکن ہمارے سوال ختم نہیں ہوتے تھے‘ یہ سوال ہمارے ذہن کے فطری بھنور بھی ہوتے تھے اور ہم لوگ بعض اوقات تماشہ لگانے کے لیے بھی ماسٹر صاحب سے سوال پوچھنا شروع کر دیتے تھے‘ اس دن میں نے سوال کی غلطی کر دی‘ ماسٹر صاحب نے ٹھوڑی کے نیچے مکا لگایا اور بولے ’’ یہ دھند ہرسال ہوتی ہے لیکن اس سال ذرا زیادہ ہو گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ سر یہ کتنے دن رہتی ہے‘‘ ماسٹر جی نے جواب دیا ’’ یہ سردیوں کے تین ماہ کسی بھی دن ہو سکتی ہے‘ اس کا کوئی اصول‘ کوئی ضابطہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا تین ماہ میں ٹریفک اسی طرح معطل رہتی ہے اور حادثے بھی ہوتے رہتے ہیں‘‘ ماسٹر صاحب کی جواب دینے کی کیپسٹی جواب دے گئی‘ انھوں نے اپنا مکا ٹھوڑی کے نیچے سے ہٹانا شروع کر دیا اور میں نے بھی فرش پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کھسکنا شروع کر دیا‘ اس صورتحال میں ماسٹر جی کے نتھنے ہمیشہ پھولنے لگتے تھے اور ان کی سانسیں تیز ہو جاتی تھیں‘ مجھے ان کے نتھنے صاف اوپر نیچے ہوتے نظر آ رہے تھے مگر وہ شاید میرے ساتھ رعایت کر گئے لیکن لہجے کا غصہ اپنی جگہ قائم تھا‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہاں پنجاب کی زندگی تین ماہ دھند میں لپٹی رہتی ہے‘‘ میں نے ان سے اگلا سوال یہ پوچھنا چاہتا تھا ’’ یہ دھند اگر ہر سال آتی ہے تو ہم اس کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے‘‘ مگر میں ماسٹر صاحب سے یہ سوال نہ پوچھ سکا کیونکہ ان کا مکا ٹھوڑی سے الگ ہو چکا تھا اور پائوں ٹھڈا بننے کے لیے زمین پر بار بار گھسٹ رہا تھا لیکن یہ سوال آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے اور میں سردی کے ہر موسم میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘ ہمارے ملک میں اگر ہر سال دھند ہوتی ہے اور ہماری سڑکیں‘ ہمارے ریلوے ٹریکس اور ہمارے ائیرپورٹس اگر ہر بار دھند میں گم ہو جاتے ہیں اور ہماری سماجی زندگی ہر سال معطل ہو جاتی ہے تو ہم اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے۔
ہم گاڑیوں کے لیے ایسی ’’فوگ لائیٹس‘‘ ایجاد کیوں نہیں کرتے جو دھند کے موسم میں بھی دور تک دکھائی دے سکیں اور ہمیں بھی دیکھنے میں مدد دے سکیں‘ ہم اپنی ونڈ اسکرینز کے لیے ایسے شیشے کیوں نہیں بناتے جن سے ہم دھند میں بھی دیکھ سکیں اور ہم ایسے کیمیکل مرکب ایجاد کیوں نہیں کرتے ہم جن کا چھڑکائو کریں اور ہماری سڑکیں‘ ہمارے ریلوے ٹریکس اور ہمارے ہوائی اڈے دھند سے پاک ہو جائیں‘ ہم سائنس کے ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں انسان کا سر تک تبدیل کر دیا گیا ہے‘ سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی خون اور مصنوعی جلد تک بنا لی‘ سائنس دان فصلوں پر مصنوعی بارش تک کر لیتے ہیں‘ انسان مریخ تک پہنچ چکا ہے‘ چاند کی زمین نیلام ہو رہی ہے‘ سائنس زمین کے اندر سوراخ کر کے دوسری طرف نکلنے کی کوشش کر رہی ہے‘ سمندروں کے اندر سے تیل اور گیس نکالی جا رہی ہے اور ہم ایک ایسی فورڈی اور فائیو ڈی ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں انسان ٹی وی کے سامنے بیٹھے گا اور کیمرہ جب برف پوش پہاڑوں پر جائے گا تو دیکھنے والے کو باقاعدہ ٹھنڈ لگے گی اور اسکرین پر جب گرم تپتے صحرا دکھائے جائیں گے یا گرم ہوائیں چلیں گی تو اسکرین سے باقاعدہ گرمی کی لہریں پیدا ہوں گی لیکن ہم سائنس کے اس عظیم اور حیران کن دور میں دھند کا علاج نہیں کر پا رہے‘ ہم اپنے ائیر پورٹس‘ ریل اور سڑکیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور اگر سڑک پر نکلنا مجبوری ہو تو ہم حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں‘ کیا ہم وقت سے بہت پیچھے نہیں ہیں۔
یہ صرف دھند ہے‘ ہم تو آج تک سیلابوں کا بندوبست نہیں کر سکے‘ ہم برسات کے موسم میں ڈوب کر مرتے ہیں اور اگلے سات آٹھ ماہ میں خشک سالی سے‘ ہم زلزلے کے بعد دو دو دن تک متاثرین تک نہیں پہنچ سکتے اور ہم اگر پہنچ جائیں تو انھیں سال سال بھر بحال نہیں کرپاتے‘ ہم بڑی دلچسپ قوم ہیں‘ ہمارے ملک میں آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں‘ ہمارے ملک کا ہر تیسرا ڈرائیور لائسنس کے بغیر گاڑی چلا رہا ہے‘ ہم آج تک ملک کی پوری آبادی کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکے‘ ہمیں یہ تک معلوم نہیں دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کتنے لوگ شہید اور زخمی ہوئے‘ ہمیں روزانہ کتنے ٹماٹر‘ آلو اور پیاز چاہیے ہوتے ہیں اور پاکستان کے عوام سالانہ کتنی چینی استعمال کرتے ہیں‘ ہم فیکٹریاں چلانے کے لیے گھروں کی گیس بند کرتے ہیں‘ پھر چولہے جلانے کے لیے فیکٹریوں کو گیس سے محروم کرتے ہیں اور آخر میں چولہوں اور فیکٹریوں کی گیس معطل کر کے سی این جی آن کر دیتے ہیں‘ ہمارا بجلی کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے۔
ہم آج کے دور میں فرنس آئل سے بجلی بنا رہے ہیں اور ہمارا پانی سمندر میں گر رہا ہے‘ ہمارا ڈالر خود بخود مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور بازار حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں‘ دنیا کے جس ملک میں الیکشن کے سات ماہ بعد بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا ایشو چل رہا ہو اور جس میں حلقے کے ووٹ دوبارہ گننے جائیں اور وہاں چالیس چالیس ہزار مشکوک ووٹ نکل آئیں‘ آپ اس میں یہ توقع کریں وہ ملک دھند کا مسئلہ حل کر لے گا‘ کیا یہ توقع درست ہوگی؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ ہماری اپروچ ہی بنیادی طور پر غلط ہے‘ ہم احتجاج اور مذمت کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں‘ جہاز اور ٹرین لیٹ ہو گئی‘ آپ نعرے بازی شروع کر دیں‘ دفتر پر حملہ کر دیں‘ فرنیچر اور شیشے توڑ دیں‘ آگ لگا دیں‘ پٹڑی پر لیٹ جائیں‘ اخبارات میں مذمتی بیان چھپوا دیں‘ اپوزیشن اس مسئلے کے خلاف پریس کانفرنس کر دے‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر جھاڑ دے یا پھر زیادہ سے زیادہ واک آئوٹ کر دے اور بات ختم۔ کیا اس سے ٹرینیں اور جہاز وقت پر چلنے لگیں گے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ پھر اس احتجاج یا واک آئوٹ کا کیا فائدہ ہوا؟
کچھ بھی نہیں! امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کر رہا ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟ ڈرون روکے جائیں‘ ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم دس سال سے احتجاج کر رہے ہیں‘ حکومت بھی احتجاج کر رہی ہے اور اپوزیشن بھی قراردادیں پاس کر رہی ہے‘ ملک میں لاء اینڈ آرڈر اور مہنگائی کا ایشو ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن مہنگائی اور لاء اینڈ آرڈر کے خلاف کوئی جامع پالیسی بنائے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم احتجاج کر رہے ہیں‘ ریلیاں نکال رہے ہیں اور مذمتی قراردادیں پاس کر رہے ہیں‘ کیا اس سے مہنگائی کم ہو جائے گی یا پھر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہو جائے گی‘ بالکل نہیں ہوگی‘ پھر ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں‘ اس کی واحد وجہ ہماری اپروچ ہے‘ ہم آج تک مسائل کے حل کی طرف نہیں آئے‘ ہم نے اپنے دماغ‘ اپنی ذہانت کو حل پر منتقل ہی نہیں کیا‘ ہم نے مسائل کا حل تلاش کرنا ہی شروع نہیں کیا اور ہماری اپروچ کی اس خرابی کی وجہ سے ملک میں صرف احتجاج کرنے والے تبدیل ہو رہے ہیں‘ کل پاکستان مسلم لیگ ن احتجاج کرتی تھی‘ آج پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستانی تحریک انصاف اور اے این پی احتجاج کر رہی ہے اور کل کو پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر احتجاج کر رہی ہوں گی لیکن مسئلے جوں کے توں رہیں گے‘ مسائل کے پہاڑ اسی طرح اپنی جگہ کھڑے رہیں گے‘ ہم نے دراصل چیخ اور ماتم کو مسئلے کا حل سمجھ لیا ہے لہٰذا ہم صدیوں سے چیختے چلے آ رہے ہیں لیکن ہمارے مسئلوں کا انبار اپنی جگہ قائم ہے‘ اگر بددعائوں اور ماتم سے دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑ سکتے‘ اگر سینہ کوبی اور ریلیوں سے مہنگائی کم ہو سکتی تو آج ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہوتے کیونکہ پوری دنیا میں ہم سے بہتر سیاپا کرنے والا کوئی نہیں‘ ہم ماتم اور احتجاج کے چیمپئن ہیں۔

Mustaqbil k Quaid

نہ جانے مجھے کیوں یقین سا ہو چلا ہے کہ اس ملک کی اکثریت، جس میں میں اور آپ شامل ہیں، کے تولیدی خلیوں میں کسی نہ کسی چیز کی کمی ضرور ہے۔ غلط مطلب اخذ نہ کریں ۔ میں اس کمزوری کی طرف اشارہ نہیں کر رہا جس سے اپنی نسل کو بڑھانے کا عمل وقتی یا حتمی طور پر متاثر ہو جاتا ہے ۔ ماشاء اللہ 20 کروڑ کا کنبہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ معاملہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ میں بات کر رہا ہوں اس عنصر کی جس کے ذریعے آنگن میں لیڈران پیدا ہوتے ہیں۔ تمام تر افرادی قوت اور استعداد رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ سے ہم اور آپ اپنی اولاد کو وہ قائدانہ صلاحتیں نہیں دے پا رہے ہیں جن کا ڈنکا ہر وقت اس ملک کی سیاسی قیادت کے گھر میں بجتا رہتا ہے۔
ہمارے بچے کاوش اور سعی کرتے ہیں۔ دن رات محنت بھی کرتے ہیں۔ اچھی ڈگریاں بھی حاصل کرتے ہیں، دنیا کے ہر کونے میں نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے رزق بھی کماتے ہیں اور نام بھی۔ سائنسدان بنتے ہیں۔ انجینئرنگ کے شعبے میں اپنا لوہا منواتے ہیں۔ کھیل کے میدان کو مسخر کرتے ہیں۔ کوہ ہمالیہ سر کر جاتے ہیں۔ دشمنوں کی گولیاں سینوں پر کھاتے ہیں۔ فیکٹریاں چلاتے ہیں۔ جہاز اڑاتے ہیں، گلیاں صاف کرتے ہیں اور سوکھی زمین کو زرخیز ہریالی سے مالا مال کر دیتے ہیں۔ یعنی سب کچھ کر لیتے ہیں۔ مگر پھر بھی سیاسی لیڈر نہیں بن پاتے۔ قیادت کا تاج کبھی ان کے سر نہیں سجتا۔ قوموں کی امیدوں کا سہرا ان پر نہیں ٹکتا۔ وہ کبھی اس مقام پر نہیں پہنچ پاتے جہاں پر ان کے ہاتھ فیصلہ سازی کی باگ ڈور کو حقیقت میں تھام لیں۔ ہمارے طبقے میں سے بہترین ذہن با صلاحیت ترین افراد، مرد و خواتین، بچے و بچیاں، ہماری طرح سیاسی طبقات کے لیے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا ان ایوانوں میں جا بیٹھتا ہے جہاں پر یہ لیڈران ایک آدھ سیٹ پر اُس کو بیٹھنے دیتے ہیں۔
یا پھر چند ایک افراد مقابلے کا امتحان دے کر اپنی بھر پور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر افسر شاہی کی تمام ضروریات پوری کرتے ہوئے ان سیاسی طبقات کے قریب ہو جاتے ہیں۔ اس قربت کے ذریعے پھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اصل میں وہی لیڈر ہیں۔ مگر حقیقت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار ایک پوسٹ یا پوسٹنگ کی مار ہیں۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے نکالے جانے والے افسروں کا حال تو دیکھیں کل کے یہ نقلی خان زادے آج کل اپنی موٹی توندوں اور کمزور ٹانگوں کے ساتھ پارکوں کا چکر لگا کر وقت گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے بچوں کے ’’بہترین مستقبل‘‘ کا یقینا انتظام کیا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو ملک سے باہر بھجوا کر اپنے خیال کے مطابق بڑا کارنامہ کیا ہے۔ مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے بچے ان کی طرح اس نظام میں جب بھی آئیں گے تو صرف جی حضوری کی نوکری ہی پائیں گے۔ سیاسی قیادت ان کو سب کچھ سکھا دے گی طاقت کے درخت پر کبھی نہیں چڑھنے دے گی۔
افسر شاہی کے غلاموں کی طرح ذرایع ابلاغ میں بھی بہت سے ایسے کردار موجود ہیں جو سیاستدانوں کی قربت کو طاقت کے دائرے میں داخلے کا ٹکٹ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ دن رات تعریفیں کر کے یا اپنی من پسند سرکار کے مخالفین پر کیچڑ اچھال کے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی بڑے شیر ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیں تو ان سب کے گلوں میں بھی رسی پڑی ہوئی ہے جس کا کونا کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔
درمیانے اور نچلے طبقات میں سے قیادت نہ ابھرنے کی روایت کے برعکس امیر سیاسی خاندانوں کی گودیں قائدین کے پھولوں سے ہر وقت ہری رہتی ہیں۔ بیسیوں برسوں سے یہ خاندان قائد پیدا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ زبردست صلاحیت کسی حال میں بھی متاثر نہیں ہوتی۔ آئین والی حکومت ہو یا آئین کو توڑنے والی، برسراقتدار یہ تمام لوگ ہی رہتے ہیں۔ قیادت کے یہ باغ بنتے بھی حیران کن انداز میں ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی قیادت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کے انداز اپنانے پڑتے ہیں ، اپنی اور ان کی ثقافت کو ملانا پڑتا ہے۔ عوام جیسا ہی ہونا پڑتا ہے۔ اگر انداز مختلف بھی ہے پھر بھی طبقاتی تفریق کو پھلانگنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تمام تر ذہانت اور مغربی تعلیم سے تراشی ہوئی شخصیت ہونے کے باوجود وہی سب کام کر کے لیڈر بنے جو عام لوگ کرتے ہیں۔ یعنی دن رات پڑھنا، امتحان پاس کرنا ۔
اپنے شعبے میں (جس کا تعلق کھیل کود سے نہیں تھا) بزور بازو اور انتھک جدوجہد سے نام کمانا اور پھر آہستہ آہستہ قیادت کا زینہ طے کرتے ہوئے خود کو اعلی منصب تک لانا۔ علامہ اقبال بھی کچھ ایسے ہی تھے (جو اداکارہ میرا کے مطابق پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ہیں)۔ علی برادران کی تاریخ بھی یہی تھی۔ برصغیر سے باہر قیادت کے شعبے میں قدم رکھنے کا کچھ ایسا ہی فارمولا رائج ہے۔ یقینا خاندان کے پلیٹ فارم سے طاقت کی سیاست کی جاتی ہے۔ اپنے بڑوں کو حاصل شدہ سیاسی مواقع اگلی نسلوں کے کام آتے ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہوں گے جہاں پر عام طبقات سیاسی قیادت میں حصہ ڈالنے کے اعتبار سے اتنے بانجھ ہوں گے جتنے ہمارے اس ملک میں ہیں۔ جبھی تو پاکستان کے سیاسی افق پر طلوع ہونے والے نئے ستاروں میں سے کوئی بھی آپ کو اپنے جیسا نہیں ملے گا۔ ایک طرف سے بلاول بھٹو طمطراق سے نمودار ہو رہے ہیں۔ کیا شاندار آمد ہے۔ عالی جاہ نے کچھ دن پہلے سندھ کی ثقافت پر چند جملے کہہ کر کمال کر دیا۔ جیکٹ کے بٹن کھول کر صحیح قیادت ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
ادھر سے مریم نواز قیادت کے آسمان پر چمکنے کو تیار ہیں۔ ان کی عقل و دانش کے چرچے پھیلائے جارہے ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پورے ایشیا میں ان کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ کچھ اس قسم کے خیال کسی زمانے میں مونس الہی، حمزہ شہباز شریف، امیر حیدر ہوتی وغیرہ کے بارے میں بھی سنے جا رہے تھے۔ ان سے ذرا کم درجے پر آپ کو ایک دو یا درجن نہیں سیکڑوں ایسے خاندان نظر آئیں گے جن کے بچے اور بچیاں ملک و قوم کی قسمت سنوارنے کی اہلیت سے مالا مال ہمارے سامنے آنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کے بچے چونکہ ابھی بہت چھوٹے ہیں لہٰذا ان کے بارے میں پیش گوئی کرنا ابھی ممکن نہیں۔ ویسے بھی عمران خان اپنی جوانی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی قسم کے اور قائد کی گنجائش بنتی بھی نہیں ہے۔ مگر ان سب کے طبقے وہی ہیں جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔ جس کے پاس اس ملک کے وسائل پر قابض رہنے کا نہ ختم ہونے والا خاندانی لائسنس موجود ہے۔ یہ اور ان کے بچے چوٹیوں پر بیٹھ کر ہم سب پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ ہم اور ہمارے بچے ان سب کا کیا بھگتتے رہیں گے

Wednesday, December 18, 2013

Hamara Jang ka Style


Afghanistan and Our National Security


Firqa Wariyat pe Ek aur Qatal


Dil Pishauri


Aadmi ko badalna lazim hai


Divyani Khobra Gaday-- Indian Diplomat in America

امریکا کے قانون کے مطابق دیویانی کھوبرا گاڈے مجرم تھی‘ امریکا میں کم سے کم اجرت 9 ڈالر 75 سینیٹ فی گھنٹہ ہے‘ امریکا میں کوئی شخص اس سے کم تنخواہ پر کسی کو ملازم نہیں رکھ سکتا‘ امریکی نظام نے یہ اجرت لوگوں کی کم سے کم ضروریات یعنی ٹرانسپورٹ‘ خوراک‘ کپڑوں‘ جوتوں اور رہائش کو مدنظر رکھ کر متعین کی‘ امریکا کے معاشی ماہرین کا خیال ہے‘ امریکا میں رہنے والا کوئی شخص اگر پونے دس ڈالر فی گھنٹہ سے کم کماتا ہے تو یہ معاشی دباؤ کا شکار ہو جائے گا اور یہ اس دباؤ سے نکلنے کے لیے چوری کرے گا‘ کرپشن کرے گا‘ فراڈ کرے گا یا پھر ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو کر اسپتال میں داخل ہو جائے گا اور ان چاروں صورتوں میں وہ شخص امریکی معیشت پر بوجھ ہو گا‘ حکومت کو اس کے علاج کی قیمت ادا کرنا پڑے گی یا پھر اس کے خلاف عدالتی کارروائی‘ تفتیش‘ پولیس اور جیل کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے چنانچہ حکومت پوری کوشش کرتی ہے‘ امریکا میں رہنے والے تمام لوگ کم ازکم پونے دس ڈالر فی گھنٹہ کمائیں‘ حکومت ملازمین کو پورا معاوضہ نہ دینے والے مالکان کے خلاف بھی سخت کارروائی کرتی ہے‘ اگر کوئی شخص ملازمین کو پونے دس ڈالر سے کم معاوضہ دیتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
دیویانی کھوبرا گاڈے نیویارک میں انڈین قونصلیٹ کی ڈپٹی قونصل جنرل ہیں‘ دیویانی نے 2012ء میں بھارت سے ذاتی ملازم امریکا منگوایا‘ بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے مطابق سینئر سفارت کار اپنے ملک سے ملازم منگوا سکتے ہیں‘ میزبان حکومت ملازمین کو ویزے جاری کرنے کی پابند ہوتی ہے لیکن ان ملازمین پر تمام مقامی قوانین لاگو ہوتے ہیں کیونکہ یہ سفارت کاروں کے ملازمین ہونے کے باوجود سفارت کار نہیں ہوتے‘ یہ امریکی سرزمین پر محض ملازم ہوتے ہیں‘ دیویانی نے ملازم نیویارک منگوایا‘ یہ اسے قانونی طور پر پونے دس ڈالر فی گھنٹہ ادا کرنے کی پابند تھی لیکن دیویانی اسے سوا تین ڈالر فی گھنٹہ دیتی رہی‘ یہ اسے 30 ہزار روپے دیتی تھی مگر اس نے کاغذات میں ملازم کی تنخواہ پونے دس ڈالر شو کر رکھی تھی‘ یہ معاملہ پولیس تک چلا گیا‘ پولیس کسی سفارت کار کو اس کے گھر سے گرفتار نہیں کر سکتی چنانچہ پولیس دیویانی کے باہر آنے کا انتظار کرتی رہی‘ دیویانی 12 دسمبر2013ء کو بچوں کو اسکول چھوڑنے گئی‘ پولیس راستے میں کھڑی تھی‘ پولیس نے اس کی سفارتی کار رکوائی‘ اپنی شناخت کروائی اور دیویانی کو گرفتار کر لیا‘ دیویانی کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں‘ پولیس اسٹیشن لایا گیا‘ اس کی جسمانی تلاشی لی گئی‘ اسے حوالات میں بند کیا گیا‘ اس پر چارج فکس کیا گیا‘ اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور مجسٹریٹ نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی ضمانت لے کر دیویانی کو رہا کر دیا۔
یہ کیس بظاہر دیویانی کے خلاف جا رہا ہے کیونکہ دیویانی نے سفارتی کاغذات میں بھی غلط بیانی کی تھی اور یہ اپنے ملازم کو بھی کم تنخواہ دے رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھارت نے امریکا کے سامنے خوفناک احتجاج کیا‘ بھارت کی سیکریٹری خارجہ سوجیتا سنگھ نے 13 دسمبر کو امریکی سفیر نینسی پاؤل کو دفتر خارجہ طلب کیا اور اس کے سامنے اس رویے پر شدید احتجاج کیا‘ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے امریکا کے اس رویئے کو بھارت کے لیے ناقابل قبول قرار دیا‘ امریکی کانگریس مین کا ایک وفد بھارت کے دورے پر تھا‘ اس وفد میں پانچ کانگریس مین شامل تھے اور اس کی قیادت جارج ہولڈنگ کر رہے تھے‘ یہ وفد 13دسمبر کو دہلی آیا مگر دیویانی کا واقعہ ہوتے ہی لوک سبھا کی اسپیکر میرا کمار نے اس وفد کے ساتھ اپنی میٹنگ منسوخ کر دی‘ وزیر خارجہ سلمان خورشید‘ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے بھی امریکی وفد سے ملاقات سے انکار کر دیا‘اس سلوک پر کانگریس مین نے اپنا دورہ مختصر کیا اور یہ امریکا واپس چلے گئے‘ نریندر مودی نے دو دن قبل ٹویٹر پر پیغام دیا‘ میں دیویانی کے ایشو پر پوری قوم کے ساتھ ہوں‘ بھارت صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ اس نے منگل کے دن بھارت میں موجود تمام امریکی سفارت کاروں کی مراعات واپس لے لیں‘ امریکی سفارت خانے کی سیکیورٹی مختصر کر دی گئی‘ امریکی سفارتکاروں کے ائیرپورٹ پاسز منسوخ کر دیے گئے اور بھارت میں موجود تمام امریکی سفارت کاروں کے ملازمین کے شناختی کاغذات‘ تنخواہوں اور دیگر مراعات کی پڑتال شروع کر دی گئی‘ بھارت نے امریکا کو یہ پیغام بھی دے دیا۔
ہم بھارت میں صرف اتنے امریکی عملے کی اجازت دیں گے جتنا امریکا میں بھارتی عملہ موجود ہے‘ آپ اضافی سفارتکاروں کو فوراً واپس بلا لیں‘ آپ بھارت کا رد عمل ملاحظہ کیجیے‘ بھارت ایک معمولی سفارت کار کی گرفتاری پر دنیا کی واحد سپر پاور کے سامنے کھڑا ہو گیا اورسفارت کار بھی بظاہر مجرم دکھائی دیتی ہے جب کہ آپ اس کے مقابلے میں پاکستانی قوم کا رویہ بھی دیکھئے‘ امریکا نے پاکستانی سرزمین کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا‘ پاکستان سے پاکستانی شہری اٹھا کر امریکا لے جائے گئے اور گوانتانا موبے کے عقوبت خانوں میں پھینک دیے گئے‘ عافیہ صدیقی کو پاکستان میں سفر کے دوران بچوں سمیت اٹھا لیا گیا‘ یہ پانچ سال بعد بگرام میں سامنے آئی‘ آج بھی اس کے دو بچے غائب ہیں‘ امریکی ہیلی کاپٹروں نے دو مئی 2011ء کی رات پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی‘ یہ ایبٹ آباد کے کنٹونمنٹ ایریا میں اترے‘ امریکی فوجیوں نے اسامہ بن لادن کو قتل کیا اور کامیاب آپریشن کے بعد افغانستان واپس چلے گئے‘ ہمارے وزراء کو امریکی ائیرپورٹس پر جوتے اتروا کر تلاشی کے عمل سے گزارا گیا‘ ہمارے پارلیمنٹیرینز کی ائیرپورٹس پر تذلیل ہوئی‘ امریکا نے 26 نومبر2011ء کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے ہمارے 26 فوجی جوان شہید کر دیے‘ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں تین معصوم شہریوں کو قتل کیا مگر یہ سفارتی جہاز میں بیٹھا اور امریکا واپس چلا گیا‘ امریکا دس سال تک اپنے کمانڈوز کو سفارتی درجہ دے کر پاکستان بھیجتا رہا‘ یہ کمانڈوز ملک کی سڑکوں پر دندناتے رہے اور پولیس اور عام شہریوں کو ہراساں کرتے رہے مگر ہم خاموش رہے‘ ہم نے کبھی صدائے احتجاج بلند کی اور نہ ہی امریکی سفارت کاروں کی مراعات واپس لیں‘ ہم تو آج تک امریکی ڈرونز کو پاکستان کی سرزمین پر آنے اور میزائل داغنے سے نہیں روک سکے‘ پاکستان میں اب تک 364 ڈرون حملے ہو چکے ہیں اور ان حملوں میں اڑھائی ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں مگر ہماری زبانوں کو تالہ لگا ہوا ہے‘ ہمارے مقابلے میں بھارت نے صرف ایک سفارت کار کی گرفتاری پر امریکا کو ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کر دیا‘ اس نے امریکا کو معافی مانگنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا اور آپ دیکھئے گا امریکا کسی بھی وقت بھارت سے معافی مانگ لے گا اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے‘ امریکا اور بھارت کے درمیان 60 ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے اور اگر امریکا اور بھارت کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں تو بھارت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو گا جب کہ پاکستان کو امریکا کی اطاعت اور فرمانبرداری کے عوض صرف ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ ملتے ہیں۔
آپ کسی دن دھوپ میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے‘ بھارت اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟ ہم نے 1950ء میں امریکا سے دوستی کی پینگ چڑھائی تھی‘ یہ وہ دور تھا جب اس پورے خطے میں کوئی ملک امریکا کا دوست نہیں تھا‘ افغانستان‘ ایران اور بھارت روس کے بڈی تھے‘ چین امریکا سے نفرت کرتا تھا‘ تھائی لینڈ‘ تائیوان‘ کوریا‘ سری لنکا‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا دوستی کے قابل نہیں تھے‘ یہ اس وقت اپنے قیام اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے تھے‘ ہم نے تنہا اس پورے خطے میں اس وقت امریکا کا ساتھ دیا‘ ہم نے امریکا کو دنیا کے حساس ترین مقام پر فوجی اڈے بنانے کی اجازت دی‘ اپنی فوج کو امریکی فوج بنا دیا‘ امریکا کو ایران اور چین تک راستہ دیا‘ افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لڑی اور پاکستانی معاشرے کو امریکنائزڈ کر دیا جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارت نے 1990ء کی دہائی میں امریکا کی طرف تعلقات کا ہاتھ بڑھایا اور یہ 2000ء تک امریکا کے اس قدر قریب ہو چکا تھا کہ امریکی صدر بھارت میں چار چار دن قیام کرتے تھے اور یہ ہماری منتوں اور گریہ زاری کے بعد صرف دو تین گھنٹے کے لیے پاکستان آتے تھے اور اس دوران بھی ہمیں ڈانٹ کر واپس چلے جاتے تھے‘ یہ حقیقت ہے ہم اگر امریکا کا ساتھ نہ دیتے تو شاید امریکا افغانستان کی پہلی اور دوسری جنگ لڑ سکتا اور نہ ہی جیت سکتا تھا‘ امریکا اور چین کے تعلقات بھی شاید استوار نہ ہو سکتے اور یہ خطے میں اتنا بڑا سفارتی مقام بھی حاصل نہ کر پاتا لیکن ہمیں اپنی ان سروسز کا کیا صلہ ملا‘ بدنامی‘ بھوک‘ بے عزتی اور خوف‘ کیوں؟ بات سیدھی ہے‘ بھکاری خواہ کتنے ہی نیک نیت‘ اہم اور ضروری کیوں نہ ہو جائیں لوگ ان کی عزت نہیں کیا کرتے۔
آپ بھی روزانہ بھکاریوں کو بھیک دیتے ہوں گے‘ آپ ان پر ترس بھی کھاتے ہوں گے اور آپ انھیں کھانا بھی کھلاتے ہوں گے لیکن آپ نے کبھی کسی بھکاری کو اپنے دوست‘ عزیز یا رشتے دار کا اسٹیٹس نہیں دیا‘ کیوں؟ کیونکہ ہم زندگی میں دوست صرف اسی کو بناتے ہیں جس میں عزت نفس ہو‘ جس میں وقار ہو اور جو ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہو‘ بھارت یہ حقیقت سمجھتا تھا جب کہ ہم لوگ آج بھی ساٹھ اور ستر کی ان دہائیوں میں زندہ ہیں جب جغرافیائی صورتحال اور جغرافیائی تنازعے معاشی حیثیت رکھتے تھے‘ آپ 70ء کی دہائی میں سوویت یونین کی سرحد کے نزدیک ہونے کی وجہ سے امریکا کی مجبوری ہوتے تھے اور یہ آپ کا ہر جائز اور ناجائز مطالبہ ماننے پر مجبور تھا لیکن دنیا نہ صرف اب بدل چکی ہے بلکہ اس بدلی ہوئی دنیا کے تمام تقاضے بھی بدل چکے ہیں اور ہم اس بدلی ہوئی دنیا میں بھکاری بن کر زندہ نہیں رہ سکتے‘ ہم جب تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوں گے‘ ہم اس وقت تک اسی طرح بے عزت ہوتے رہیں گے چنانچہ آپ بے شک تاریخ سے سبق نہ سیکھیں لیکن آپ دیویانی ایشو پر بھارتی ردعمل سے ہی کچھ سیکھ لیں‘ آپ اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے آئیں ورنہ آپ ماضی کی قبر کا کتبہ بن کر رہ جائیں گے اور دنیا کی پہلی اسلامی نیو کلیئر پاور اس سلوک کی مستحق نہیں ہوگی‘ اسے کم از کم دیویانی کی قوم جتنا مضبوط اور باوقار ضرور ہونا چاہیے۔

India ka Role n Hamari Khamoshi



Ghaddari Case for 3 Nov Events



GT Road se Pegham By Talat Hussain

یہ جی ٹی روڈ بھی غضب کی جگہ ہے۔ یہاں حقیقی پاکستان بستا ہے۔ ایک طرف سے لے کر دوسری طرف تک کے نظار ے آپ کو تمام پاکستان کا سفر کرا دیتے ہیں۔ جب بھی میں اپنی عادت کے مطابق علی الصبح اپنے سفر کا آغاز کرتا ہوں تو بیسیووں دیکھی بھالی منزلیں دوبارہ سے نئی خبر کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ یہاں پر آپ کو ٹرکوں میں جانور اور اُن کے ساتھ ٹھونسے ہوئے اکڑوں بیٹھے  انسان سفر کرتے ہوئے ملیں گے۔ ساتھ سڑ ک پر لکھی ہوئی یہ عبارت بھی نظر آئے گی کہ آگے جی ٹی روڈ ہے احتیاط کیجیے۔ سڑ ک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے بلاکس کو پھلانگتے ہوئے پیدل چلنے والے، برقعے اور چادر میں لپٹی ہوئی گھبرائی ہوئی خواتین جو سڑ ک کے ایک کنار ے سے دوسری طرف کا فاصلہ طے کرنے میں گھنٹے لگا دیتی ہیں، کسی بھی لمحے جست لگا کر آپ کو حیران کر دیں گی۔ ٹر ک ڈرائیور جو ہمیشہ ایک طرف اشارہ دے کر دوسری طرف مڑ جاتے ہیں، ہر کوس پر فرشتہ اجل کی طرح موجود ہوتے ہیں۔ تانگے، گدھا گاڑیاں، ٹوپیوں اور کمبلوں میں چھپے ہوئے موٹر سائیکل سوار، ننھے منے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اسکولوں کی جانب گامزن بچے۔ راولپنڈی سے کھاریاں تک کے حصے میں آپ کو اسکول جاتے ہوئے بچے اُمید بھی دلواتے ہیں اور گہری افسردگی میں مبتلا بھی کر دیتے ہیں۔
خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ ہماری عوام تعلیم کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ماں باپ اپنے جسم کی زکوۃ دے کر جگر گوشوں کو میلوں دور اسکول میں صرف اس امید پر بھجواتے ہیں کہ اُن کے خیال میں تعلیم کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ ہاں اگر کسی نے اِس ملک میں طاقت اور دولت حاصل کرنی ہے تو اُس کے لیے یہ کشٹ کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ مگر افسوس اُن مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہوتا ہے جو یہ بچے روزانہ تعلیم کے نام پر برداشت کرتے ہیں۔ چنگ چی رکشے اور ہر طرف سے بند ویگنیں جانوروں کی طرح لوگوں کی اولادوں کو لاد لاد کر اسکول کے سامنے پھینکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میں پھینکتی ہوئی اِس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ نیند سے محروم ڈرائیور اور اُس کا ساتھی بچوں کو ویگن سے اُتارتا نہیں بلکہ کھینچ کر دھکا ہی دیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اِن بچوں کے والدین کو حکومتیں اور ریاست عرصہ دراز سے کھینچ کر دھکا دے رہی ہیں۔ جن کے پاس ویگن کا کرایہ نہیں ہوتا وہ بستوں کے بوجھ کو کمر پر لادے ہوئے دھند زدہ محلوں میں سے نکل کر مٹی سے اٹے ہوئے اسکولوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ جو حکومتیں طلباء اور طالبات کو مہذب انداز سے اسکول نہیں پہنچا سکتیں وہ اِس قوم کو روشن منزل تک کیسے لے جائیں گی۔
پاکستان کے حالات کی طرح جی ٹی روڈ بھی کیفیت تبدیل کرنے میں یکتا ہے۔ کبھی کمر توڑ ہچکولے اور کبھی شیشے کی طرح صاف سڑک، کبھی بڑی بڑی تفریح گاہیں اور بین الا قوامی مہر شدہ خرید و فروخت کی اشیا ء سے بھرے ہوئے پلازے اور کبھی گندگی اور غلاظت سے اٹے ہوئے گائوں، کہیں کنٹونمنٹ کا منظم نظام اور کہیں اللہ کے بھروسے ادھم مچاتی ہوئی ٹریفک۔ یہاں پر بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نونا پہلوان اپنی تشہیر سڑک کے کنار ے بورڈ لگا کر کرتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی سیٹھی دولہا سینٹر بھی نظر آجاتا ہے۔ یہ امریکی بھی بہت شرارتی ہیں، کرکٹ اور میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے بعد بھی شادیوں کے کاروبار میں بھی حصے دار بن گئے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ سیٹھی دولہا سینٹر میں شادیاں زیادہ ہوتی ہوں گی یا طلاقیں۔ اس نام کے ساتھ کوشش کے باوجود خیر کا پہلو نہیں جوڑا جا سکتا۔
آج کل چونکہ دھند نے ہماری سڑکوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے لہذا میلوں تک آپ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بھی مدہم لائٹوں کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ صورت حال سے تنگ آ کر میں نے اخبار اٹھا لیا۔ بڑی بڑی خبروں کے ساتھ ایک چھوٹی خبر پشاور کے حوالے سے بھی لگی ہوئی تھی جہاں پر چار پولیس والے سلیمان خیل نامی گائوں میں ایک بم کو ناکارہ بناتے ہوئے اللہ کو پیار ے ہو گئے۔ سب انسپکٹر عبدالحق کی عمر61 سال تھی جب کہ کاشف ولی اور امتیاز بالترتیب 33 اور 30 سال کے تھے۔ چوتھا امین الحق بھی درمیانی عمر کا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ چاروں اس علاقے میں بارود سے بھرے ہوئے ایک لفافے کو احتیاط سے ہٹاتے ہوئے اُس بم کا شکار ہو گئے جو اُن کے انتظار میں قریب ہی نصب تھا۔ اس سے پہلے اُنہوں نے کئی مرتبہ اس طرح کے کئی خطرناک کام کامیابی سے سرانجام دیے تھے۔ درجنوں تباہ کن موت کے آلات کو بہادری کے ساتھ ناکارہ بنا کر سیکڑوں جانوں کو بچانے والے یہ تجربہ کار لوگ اس مرتبہ جانبر نہ ہو پائے۔ عبدالحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایسے موقع پر اپنی خدمات خود سے پیش کر دیا کرتا تھا جہاں پر بڑے بڑوں کا دل لرز جاتا تھا۔ بم بنانے والوں نے اِن  کو نشانہ بنا کر صوبہ خیبرپختونخوا کی بم ناکارہ کر نے کی صلاحیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ویسے بھی اس شعبے کی طرف اب کوئی آنے کو تیار نہیں۔130 کے قریب نوکریاں درخواستوں کا انتظار کر رہی ہیں۔ لیکن ماہرین کے مسلسل مار ے جانے کے بعد اِس کام کو کرنے والے کنی کتراتے ہیں۔ ویسے کنی کترائیں گے نہیں تو کیا کریں گے اس شعبے کی حالت بس جی ٹی روڈ جیسی ہے۔ نہ اِن کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں ہیں اور نہ ہی وہ لباس جو دھماکہ خیز مواد کے پھٹ جانے پر موثر انداز سے جان کا تحفظ کر پاتا ہے۔ ظاہر ہے پرویز خٹک کی حکومت پچھلی حکومتوں کی طرح ان شعبوں پر وسائل خرچ کرنا ایک فضول کوشش سمجھتی ہے۔ ویسے بھی بم ناکارہ کرنے والوں کا تحفظ وی آئی پی کے تحفظ سے زیادہ اہم تو نہیں ہے۔ اصل ہدف سیاسی قیادت کو بچانے کا ہے، یہ چھوٹے موٹے افراد اور کارکن ہوتے ہی مر  جانے کے لیے ہیں۔ اِن کے جسم اور پرخچے دونوں برابر ہیں۔ زندہ ہیں تو کس کام مر جائیں گے تو کیا نقصان ہو گا۔ تمام توجہ انفرادی قیادت کو محفوظ بنانے پر صرف ہونی چاہیے۔ عبدالحق جیسے لوگوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک آدھ وزیر اُن کے جنازے میں شریک ہو جائے گا۔ اور ہاں اگر میڈیا میں خبریں دو چار زیادہ چھپ گئیں تو شاید عمران خان اس پر دو لفظ بول دے، اس سے زیادہ کیا کیا جا سکتا ہے ان بم ناکارہ بنانے والے ناکارہ لوگوں کے لیے۔ اور ہا ں یہاں پر اُس سہولت کا ذکر بھی کرنا چاہیے جو اس شعبے میں کام کرنے والوں کو خاص طور پر مہیا کی گئی ہے۔
اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر ان سب لوگوں کو 50 روپے کا خطیر الائونس دیا جاتا ہے۔ جی ہا ں! 50 روپے۔ بڑی رقم ہوتی ہے۔ اس سے زندگی سنور جاتی ہے۔ چینی کے کارخانے لگ جاتے ہیں۔ پرائیویٹ جیٹ خریدے جا سکتے ہیں۔ کرسمس لندن میں اور نئے سال کی پارٹی پیرس میں کی جا سکتی ہے۔300 کنال کا گھر لیا جا سکتا ہے۔ عالی شان فارم ہائوس کے مالک بن سکتے ہیں۔ اتنے بڑ ے الائونس کے باوجود لوگ اب یہ نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے ناشکری قوم۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس قوم کا رویہ وہی ہے جو پنجاب میں ہے۔ میاں نواز شریف نے اتنی چاہت سے موٹروے بنوائی آرام دہ سفر کو یقینی بنایا مگر پھر بھی یہ جاہلوں کی طرح جی ٹی روڈ سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ وہاں کی خا ک ہی چھانتے رہتے ہیں۔ اُس کے اردگرد جیتے اور وہاں کے حادثات میں ہی مرتے رہتے ہیں۔ جی ٹی روڈ سے عوام بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مثلاً  اگر وہ ایک بورڈ پر لکھی ہوئی اس ہدایت کو ہی اپنا لیں تو وہ اپنے پیغام کو اپنی قیادت تک بہترین انداز میں پہنچا سکتے ہیں۔ ہدایت یہ ہے ’’ اشاروں کو صحیح طریقے سے استعمال کریں‘‘ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے اس کے اردگرد رہنے والے اس پر خجل خوار ہونے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ آیندہ جب کوئی قائد انقلابی تبدیلی کی بات کرے تو اپنے ہاتھوں کے اشاروں کا صحیح طریقے سے استعمال کریں، اس کو آپ کی بات سمجھ آ جائے گی۔

Dehshat Gardi ka Qaida



Kaghaz ka Gadha - by Hassan Nisar


Monday, December 16, 2013

Aik La Pata Az Khud Notice


American Jasoosi


Bharat Se Ziada Apna Qasoor


Kia Ye Insaaf Hai??

جب بنگلہ دیش بنا تو اس وقت شیخ مجیب الرحمان دیوتا  تھے، پھر بھی ان کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ بنگالی قوم کے احساس ِ محرومی ، غصے اور جذبہِ انتقام کو قومی تعمیر کی جانب مرتکز کرکے خون میں نہائی آزادی سے ایک شونار بنگلہ ( سنہری بنگلہ دیش ) پیدا کرلیا جائے۔ایسا بالکل ممکن تھا کیونکہ اس وقت قومی اکثریت شیخ مجیب کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے پر آمادہ تھی۔لیکن گرم لوہا ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔مجیب الرحمان کو جو مختصر قیمتی وقت میسر آیا اس کو شخصی و خاندانی حکمرانی پروان چڑھانے اور ملک کو یک جماعتی آمریت کی جانب دھکیلنے اور کولوبریٹر ایکٹ اور وارکرائم ٹریبونل ایکٹ پر لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے صرف ساڑھے چار برس بعد ہی غصہ غصے کو کھا گیا۔شیخ مجیب کے پورے خاندان کو انھی میں سے کچھ فوجیوں نے صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جنہوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔بس دو بیٹیاں ریحانہ اور حسینہ بچ گئیں۔
ہاں انیس سو اکہتر کے مشرقی پاکستان میں انسانیت کو ننگا نچوایا گیا تھا۔ہاں جسٹس حمود الرحمان کمیشن کے چھبیس ہزار سے مجیب حکومت کے تیس لاکھ کے درمیان کی کسی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ہاں پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان عورتیں ریپ ہوئیں۔ہاں البدر ، الشمس ، المجاہد اور رضاکار  متحدہ پاکستان کی حمایت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بنے اور مکتی باہنی نے شونار بنگلہ کے حصول کے لیے غیر بنگالیوں کو جہاں موقع ملا گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ہاں خانہ جنگیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آیندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔چند لوگ ایک دوسرے کے ولن ہوں گے لیکن اجتماعی بھگتان نسلوں اور پورے پورے نسلی و مذہبی گروہوں کو سہنا پڑے گا۔اس کے باوجود کہیں تو لکیر کھینچنی ہی پڑتی ہے کہ بس جو ہو گیا سو ہوگیا۔ جو آزادی مل گئی اس کے صدقے خونی ماضی کو یادوں کی کوٹھڑی میں کسک کی کیل سے ٹانگ دو اور آگے کا سوچو۔جو نادم ہو اسے معاف کردو جو نادم نا ہو اسے معاف کر کے نادم کردو۔
کیا مکہ میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہی نہیں ہوا تھا ؟ کیا ڈیڑھ ہزار برس بعد الجزائریوں نے نوآبادیاتی فرانسیسیوں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا جنوبی افریقہ کے کالوں نے سفاک گوروں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا سابق یوگوسلاویہ میں ہزاروں سربوں ، کروٹوں اور مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد یہی نہیں ہوا۔کیا یہ بات سمجھنا اور سمجھانا راکٹ سائنس ہے کہ منتقم غصہ دوسرے سے زیادہ خود کو اندر سے سنگسار کرتا رہتا ہے۔ کچھ کو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے جیسے نیلسن منڈیلا وغیرہ۔ کچھ کو بیالیس برس میں بھی سمجھ میں نہیں آتی جیسے حسینہ واجد وغیرہ۔
پھر بھی اگر آپ ماضی کا کھاتہ معافی کے بجائے انصاف سے صاف کرکے دل کو تسکین دینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔مگر انصاف کا کھیل ذرا ٹیکنیکل ہے۔اس راہ میں پھونک پھونک کے رکھے جانے والے ننانوے قدموں کے بعد ایک سوواں قدم بھی ٹھیک ٹھیک ہی پڑنا چاہیے ورنہ انصاف کی ساری مسافت بے کار ، پلید اور ملیامیٹ ہونے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
کتنا اچھا لگا تھا جب شیخ مجیب الرحمان بطور وزیرِ اعظم فروری انیس سو چوہتر کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔معافی تو تب بھی پاکستان نے نہیں مانگی تھی۔جماعتِ اسلامی تو تب بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے چلانے کے لیے بنگلہ دیش نامنظور کا پورا زور لگا رہی تھی۔ایک سو پچانوے پاکستانی فوجی افسر تو تب بھی بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی فہرست میں تھے۔لیکن جب ان پر اس لیے مقدمہ نہیں چل پایا کہ دو لاکھ بنگالی شہری مغربی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان ایک سو پچانوے کے مقامی ہوتوں سوتوں پر چالیس برس بعد مقدمہ چلانے کا جواز عجیب سا لگتا ہے۔
سن تہتر میں جب جنگی جرائم کا پہلا ٹریبونل بنا تو بنگلہ دیش میں مشتبہ جنگی مجرموں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔اب یہ تعداد سرکاری طور پر سولہ سو کے لگ بھگ ہے۔یہ بھی چند برس میں مر ہی جاتے جیسے باقی ساڑھے اڑتیس ہزار مر گئے۔اسرائیل نے برسوں بعد بھی جب ہاتھ ڈالا اصلی نازیوں پر ڈالا ان کے مقامی چیلوں چانٹوں پر وقت ضایع نہیں کیا۔ویسے بھی جب کمہار پہ بس نا چلے تو گدھے کے کان اینٹنھنے سے کیا حاصل۔
پھر بھی مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہے کہ ملا عبدالقادر کو پھانسی اتنی عجلت میں کیوں دے دی گئی۔پریشانی بس یہ ہے کہ جب سرکاری وار کرائمز ٹریبونل نے انھیں پانچ انسانیت سوز جرائم پر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور ایک جرم میں بری کردیا تھا تو پھر سپریم کورٹ نے چھٹا جرم بحال کرکے عمر قید کو سزائے موت میں کیسے بدل دیا۔اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کا فیصلہ ناقص تھا اور اسے سپریم کورٹ نے درست کردیا تو پھر ایسے ناکارہ وار کرائمز ٹریبونل کو توڑ کے نیا ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا اور اسی ناقص ٹریبونل نے جن باقی نو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ ان کے ناقص ہونے یا نا ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کب اور فیصلہ کرے گی۔
جب فروری میں ملا عبدالقادر کو وار کرائمز ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو ڈھاکہ کے شاہ بیگ چوک اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت سے کم کوئی سزا منظور نہیں۔اور پھر عوامی لیگ حکومت نے وار کرائم ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت عدالتی سزا سے مطمئن نہیں تو وہ متاثرین کی نمایندہ بن کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی۔اور پھر سپریم کورٹ نے ملا عبدالقادر کی عمرقید کو سزائے موت سے بدل دیا۔تو کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی انفرادی و اجتماعی دباؤ میں نہیں آئی۔
اور وار کرائمز ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم کو انیس سو اکہتر کے اخباری تراشوں کو بنیادی ثبوت مانتے ہوئے انسانئیت سوز مجرم کیسے قرار دے دیا اور اس نوے سالہ پروفیسر کو نوے سال قید کی سزا کیسے سنادی ؟ کیا یہ وہی غلام اعظم نہیں جن کی بنگلہ دیشی شہریت خود سپریم کورٹ نے انیس سو چورانوے میں بحال کی اور فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ وہ بطور آزاد شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔اور اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ناقص تھا تو پھر اس فیصلے کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں برسرِ اقتدار آنے والی حسینہ واجد حکومت نے اقتدار میں پورے پانچ برس گذارنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی اور جو وار کرائمز ٹریبونل حسینہ حکومت نے دو ہزار دس میں تشکیل دیا وہی ٹریبونل انیس سو چھیانوے تا دو ہزار ایک کے درمیان تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ تھی۔کیا ایسا تو نہیں کہ ان پانچ برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے سبب جنگی جرائم کے انصافی کھڑاگ میں پڑے بغیر اکیس برس کے وقفے سے ملنے والی حکومت کی مدت پوری کرنا چاہ رہی تھی اور جیسے ہی انھیں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت مل گئی تو انیس سو اکہتر کے نامکمل انصافی تقاضے پوری طرح سے یاد آگئے۔
لیکن وار کرائمز ٹریبونل بناتے وقت حسینہ واجد کو یہ کیوں یاد نہیں آیا کہ یہ وہی غدار جماعتِ اسلامی ہے جو 80 کے عشرے میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے شانہ بشانہ فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں شامل تھی۔اور یہ وہی جماعتِ اسلامی ہے جس کے ارکان ِ پارلیمان اسی ایوان میں انیس سو اناسی سے اب تک بیٹھتے رہے ہیں جس میں عوامی لیگ کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزبِ اختلاف کے طور پر موجود  رہی ہے۔جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنرل ضیا الرحمان کی حکومت نے بنگلہ دیش واپسی کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے ہی جماعت پر سیاسی پابندی اٹھائی تھی۔ توہے کوئی عوامی لیگ میں جو جنرل ضیا الرحمان کو غدار کہہ سکے۔وہ میجرضیا الرحمان جس نے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان نشر کیا  اور مال خانے کے ہتھیاروں سمیت سرحد پار جا کر آزادی پسندوں کو منظم کرتا رہا۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جس نے جو جرم کیا اس کو اس کی پوری سزا ملنی چاہیے۔اچھا آپ کے پاس تو جماعتِ اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سید کو سزائے موت سنانے کے لیے نسل کشی ، قتلِ عام ، ریپ اور ٹارچر کے ٹھوس ثبوت اور عینی شاہدوں کی کثیر تعداد تھی۔پھر بھی ان کی طرف سے پیش ہونے والے گواہ سکھ رنجن بالی کو عین عدالت کے دروازے سے پولیس کیوں اغوا کر کے لے گئی اور وہ ایک برس بعد بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جیل میں کیوں پایا گیا۔اور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کو یہ کیوں لکھنا پڑ گیا کہ دلاور سید کے مقدمے کے مرکزی جج کے استعفیٰ کے بعد دیگر ججوں نے صفائی کے تمام گواہوں کو سنے بغیر سزائے موت سنادی۔اچھا تو ابوالکلام آزاد عرف بچو رضاکار کو اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ کیوں نا مل سکا ؟ محمد قمر الزماں اسٹنٹ سیکریٹری جنرل جماعتِ اسلامی کو سال بھر بغیر فردِ جرم کے رکھا گیا اور پھر جنگی جرائم کی فردِ جرم سامنے آگئی۔علی احسن محمد مجاہد پر سات الزامات لگے، پانچ میں بری مگر دو کی بنیاد پر سزائے موت ؟؟
ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ایک اسپیکر فضل القادر چوہدری کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگی جرائم میں شراکت کی مد میں جیل میں ڈالا گیا۔انیس سو تہتر میں وہ بلا مقدمہ جیل میں ہی مرگئے۔اب ان کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری چار مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بعد جنگی مجرم قرار پائے۔تئیس الزامات میں سے نو کی بنیاد پر سزائے موت سنا دی گئی۔
دو ہزار دس میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل تشکیل پایا اس کے چیف جج محمد نظام الحق اور دو معاون جج اے ٹی ایم فضلِ کبیر اور اے کے ظہیر احمد تھے۔محمد نظام الحق مقدمات کی سماعت کے دوران برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیا الدین سے سکائپ اور ای میل پر مسلسل صلاح مشورے کرتے رہے۔دو سو تیس سے زائد ای میلز اور سترہ گھنٹے کی سکائپ ریکارڈنگ اخبار امر دیش کے ایڈیٹر محمود رحمان کے ہتھے چڑھ گئی۔انھوں نے اسے شایع کردیا۔حکومت نے اس جرم میں ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ایک ٹیپ میں چیف جج محمد نظام الحق کہہ رہے ہیں کہ عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہوگئی ہے۔وہ سولہ دسمبر کو یومِ آزادی سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔اس ریکارڈنگ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نظام الحق نے ٹریبونل سے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے نیا ٹریبونل تشکیل دینے کے بجائے فضلِ کبیر کو چیف جج بنا دیا۔حسینہ واجد نے کہا کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کارروائی جاری رہے گی۔
ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی ، امریکا ، یورپی یونین ، جرمنی ، برطانیہ ، آسٹریلیا  اور اقوامِ متحدہ نے دو ہزار دس میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین القوامی معیارات کے مطابق نہیں چلائے گئے۔

Adal e Farooqi -- By Javed Ch

آپ کو یاد ہو گا سپریم کورٹ نے2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی صدارتی اہلیت کے کیس کی سماعت شروع کی‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہو چکے تھے ‘ جسٹس جاوید اقبال گیارہ ججوں کے ساتھ اس کیس کی سماعت کر رہے تھے‘ جج حضرات صدر جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں طلب کرنا چاہتے تھے لیکن اٹارنی جنرل قیوم ملک اس طلبی کے خلاف تھے‘ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا‘ صدر کو امیونٹی حاصل ہے‘ یہ عدالت میں پیش نہیں ہو ں گے‘ اس وقت غالباً جسٹس خلیل رمدے نے ریمارکس دیے ’’ اگر حضرت عمر فاروق ؓ قاضی کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں تو جنرل پرویز مشرف کیوں نہیں؟‘‘ اٹارنی جنرل کے پاس اس دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا‘ یہ دلیل سوئس مقدمات کے کیس میں بھی دہرائی گئی‘ سپریم کورٹ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیسز کھلوانا چاہتی تھی لیکن اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ’’ صدر کو امیونٹی حاصل ہے‘ ان کے خلاف مقدمات نہیں کھل سکتے‘‘ اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا فرمان تھا ’’ اگر حضرت عمرؓ کو کوئی امیونٹی حاصل نہیں تھی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو یہ استثنیٰ کیوں حاصل ہے‘‘یہ دونوں جواز سو فیصد درست تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓ بلاشبہ دنیا کی تاریخ کے ایک ایسے حکمران تھے جنہوں نے خلیفہ کی حیثیت سے کوئی امیونٹی‘ کوئی استثنیٰ حاصل نہیں کیا‘ یہ دوسری چادر کا حساب بھی دیتے تھے اور اپنے صاحبزادے کو مصر میں شراب پینے کے جرم میں مدینہ میں طلب کر کے خود اپنے ہاتھ سے کوڑے بھی مارتے تھے اور یہ سزا اس کے باوجود جاری رہتی تھی کہ مصر کے گورنر عمروبن العاصؓ خلیفہ سے بار بار عرض کرتے تھے ‘ میں نے ملزم کو مصر میں سزا دے دی تھی مگر حضرت عمرؓ کا فرمانا تھا‘ تم نے اسے تنہائی میں سزا دی‘ یہ خلیفہ کا بیٹا ہے‘ یہ جب تک عوام کے سامنے سزا نہیں پائے گا‘ انصاف کا عمل مکمل نہیں ہوگا‘ حضرت عمرؓ کے احکامات بہت دلچسپ ہوتے تھے‘ یہ جب بھی کسی گورنر یا کسی منتظم کی تنزلی‘ معزولی یا گرفتاری کا حکم جاری کرتے تھے‘ یہ فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کسی سیاہ فام غلام کو بھجواتے تھے‘ زیادہ تر کیسز میں یہ ذمے داری حضرت بلال حبشیؓ کو سونپی جاتی تھی‘ خلیفہ کا یہ خصوصی ایلچی جمعہ کے دن وہاں پہنچتا تھا‘ سیدھا جامع مسجد جاتا تھا‘ جمعہ کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا اور جوں ہی نماز ختم ہوتی تھی‘ یہ کھڑا ہو کر عوام کو خلیفہ کا حکم سناتا تھا‘ لوگوں کے سامنے گورنر‘ سپہ سالار یا منتظم کی پگڑی کھولتا تھا‘ اس کی مشکیں کستا تھا اور اسے گھوڑے پر بٹھا کر مدینہ روانہ ہو جاتا تھا۔
حضرت بلالؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ تک کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا‘ حضرت عمرؓ کے دور میں جب بھی لوگوں کو جمعہ کی نماز میں حضرت بلال حبشیؓ دکھائی دیتے تھے‘ گورنر اور سپہ سالار کی ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں اور وہ خود ہی اپنی پگڑی ڈھیلی کر لیتا تھا‘ ہم اگر حضرت عمرؓ کی پوری شخصیت کو ایک لفظ میں واضح کرنا چاہئیں تو وہ لفظ ہو گا ’’عدل‘‘۔ حضرت عمرؓ کی پوری زندگی عدل اور انصاف کے گرد گھومتی ہے‘ آپؓ سے قبل عدل محض عدل تھا لیکن آپؓ نے اسے عدل فاروقی بنا دیا اور دنیا میں آج بھی جہاں پورا انصاف ہوتا ہے لوگ اس انصاف کو ’’عدل فاروقی‘‘ کہتے ہیں‘ آپؓ عدل کے معاملے میں بہت سخت تھے‘ آپؓ نے پوری زندگی اپنے لیے پکا گھر نہیں بنوایا‘ خزانے سے صرف اتنا وظیفہ لیا جس سے ’’شاہی خاندان‘‘ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکتا تھا‘ آپؓ فاقہ کشی‘ روزوں اور کم خوراکی کی وجہ سے اس قدر کمزور پڑ گئے کہ آپؓ کی پسلیاں تک گنی جا سکتی تھیں‘ غیر ملکی مہمان مسلمانوں کے بادشاہ سے ملاقات کے لیے آتے تھے تو وہ آپؓ کو صحرا کی گرم ریت پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوتا ہوا دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے ‘یہ لوگ آپؓ  کو مدینہ منورہ میں گارڈز یا محافظ کے بغیر پھرتا دیکھتے تھے تو بھی یہ اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیتے تھے‘ آپؓ ایک دن شہر میں اسی طرح محافظوں کے بغیر گشت کر رہے تھے‘ یہ منظر ایک مہمان نے دیکھا تو وہ ڈرتا ڈرتا آپؓ کے پاس آیا اور عرض کیا ’’ آپ محافظوں کے بغیر پھرتے ہیں‘ کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا‘‘ حضرت عمر فاروق  ؓ نے فرمایا‘ مجھے لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے منتخب کیا ہے‘ میں جب اپنے لیے محافظ رکھوں گا تو پھر میں لوگوں کا محافظ نہیں رہوں گا‘ محافظ کو محافظ زیب نہیں دیتے‘ وہ شخص خاموش ہو گیا۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں‘ ہم اپنے گرد آباد تمام لوگوں کو حضرت عمر فاروق  ؓ دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں‘ یہ لوگ حضرت عمر فاروق  ؓکی طرح اپنے بیٹے کو کوڑے بھی ماریں‘ یہ دوسری چادر کا حساب بھی دیں‘ یہ محافظوں کے بغیر دشمنوں کی صفوں میں بھی رہیں‘ یہ غلام کو اونٹ پر بٹھا کر خود نکیل پکڑیں اور اس عالم میں فتح کی دستاویز پر دستخط کے لیے بیت المقدس میں داخل ہوں‘ یہ حکمران ہونے کے باوجود کچے مکان میں رہیں‘ بھیس بدل کر شہر میں گشت کریں‘ کان لگا کر دودھ میں پانی ڈالنے والوں کی گفتگو سنیں‘ دودھ پیتے بچوں کا وظیفہ مقرر کریں‘ درد زہ میں مبتلا خواتین کی ڈیلیوری کے لیے اپنی اہلیہ کو لے کرمسافروں کے خیمے میں چلے جائیں‘ یہ دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتوں کو بھی اپنی ذمے داری سمجھیں اور یہ مصر‘ ایران اور شام کے گورنروں کو بلا کر جانور چرانے پر لگا دیں لیکن جب ہماری باری آئے‘ انصاف کا تیر جب ہماری طرف ہو تو ہم فرعون بن جائیں‘ ہم خود کو (نعوذ باللہ) خدا ڈکلیئر کر کے ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہو جائیں‘ ہم لوگ دوسروں کو ہمیشہ حضرت عمر فاروق  ؓ اور خود کو قیصر روم دیکھنا چاہتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ معاشرے میں روز دکھائی دیتا ہے‘ ہم میں ہر شخص روز رومن ایمپائر کا سیزر بن کر گھر سے نکلتا ہے ‘ فرعون کی طرح سورج کو مغرب سے نکالنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن دوسروں کو حضرت عمرؓ دیکھنا چاہتا ہے‘ کیوں؟ شاید اس لیے کہ ہم ایک منافق قوم ہیں۔
ہمارے قومی ہیرو (میں ابھی تک انھیں اپنا ہیرو سمجھتا ہوں) چیف جسٹس (سابق) افتخار محمد چوہدری نے اس سلسلے میں تازہ ترین مثال قائم کی‘ یہ اپنی مدت ملازمت کے دوران جنرل پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور صدر آصف علی زرداری کو حضرت عمر فاروق  ؓ جیسا حکمران بنانے کی کوشش کرتے رہے‘ یہ انھیں حضرت عمر  فاروق  ؓ کی طرح عدالت میں پیش ہونے‘ اپنی امیونٹی سرینڈر کرنے اور حضرت عمر فاروق  ؓ جیسی سادگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے رہے لیکن انھوں نے خود 12 دسمبر کو رخصت ہونے سے قبل حکومت پاکستان سے اپنے لیے بلٹ پروف گاڑی اور سیکیورٹی مانگ لی‘ سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے وزارت داخلہ سے درخواست کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں بلٹ پروف گاڑی بھی فراہم کی جائے اور بھاری سیکیورٹی بھی‘ یہ خط وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تک پہنچا تو انھوں نے نہ صرف یہ درخواست منظور کر لی بلکہ سابق چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی اور سیکیورٹی دینے کا حکم بھی جاری کر دیا تاہم موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چارج سنبھالنے کے بعد یہ درخواست واپس لے لی‘ آپ اندازہ کیجیے‘ ہماری عدلیہ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزراء اعلیٰ اور وفاقی وزراء کی سیکیورٹی کے خلاف ہے‘ یہ سیاستدانوں کو سرکاری رقم سے بلٹ پروف گاڑیوں کی فراہمی کو بھی پسند نہیں کرتی‘ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے حکومت سے سیکیورٹی مانگی تو حکومت نے انھیں سیکیورٹی دی اور نہ ہی بلٹ پروف گاڑی‘ صدر سندھ ہائی کورٹ گئے اورانھیں ذاتی بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی گارڈز رکھنے کی اجازت مل گئی مگر حکومت سابق چیف جسٹس کو سرکاری بلٹ پروف گاڑی اور سیکیورٹی دے رہی ہے‘ کیوں؟ یہ لوگ اگر پورے ملک کو حضرت عمر فاروق  ؓ جیسا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ خود حضرت عمر فاروق  ؓ کیوں نہیں بن رہے؟یہ دوسروں کے ایمان کی پڑتال تو کرتے ہیں مگر اپنے ایمان کو کسوٹی پر چڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ملک میں اگر کوئی عام شہری اپنی ذاتی جیب سے پورا ٹیکس‘ پوری ڈیوٹی ادا کر کے بلٹ پروف گاڑی امپورٹ کرنا چاہے تو یہ وزارت داخلہ کے این او سی کا محتاج ہوتا ہے‘ یہ درخواست جمع کراتا ہے‘ ایف آئی اے‘ آئی بی اور آئی ایس آئی اس شہری کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ تیار کرتی ہے‘ یہ رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع ہوتی ہے لیکن ان تمام ایجنسیوں کی کلیئرنس کے باوجود اس شہری کو بلٹ پروف گاڑی منگوانے کی اجازت نہیں ملتی‘ یہ فیصلہ بالآخر وزیرداخلہ خود کرتے ہیں‘ چوہدری نثار نے قلم دان سنبھالنے کے بعد بلٹ پروف گاڑیوں کے اجازت ناموں کی فائل اپنی تحویل میں لے لی ہے‘ یہ کسی شخص کو بلٹ پروف گاڑی امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے لیکن آپ دوسری طرف ان کی مہربانی ملاحظہ کیجیے‘یہ سابق صدر کو سیکیورٹی‘ پروٹوکول اور بلٹ پروف گاڑی نہیں دے رہے مگر یہ سابق چیف جسٹس کو فوراً سرکاری بلٹ پروف گاڑی بھی الاٹ کر دیتے ہیں اور سیکیورٹی اور پروٹوکول کا حکم بھی جاری کر دیتے ہیں‘ کیوں؟ آصف علی زرداری کیوں نہیں؟ اور افتخار محمد چوہدری کیوں؟ کیا اس ملک میں کوئی شخص اس کیوں کا جواب دے گا اور ہم کب تک سیزر کے تخت پر بیٹھ کر دوسروں کے حضرت عمر فاروق  ؓبننے کا انتظار کرتے رہیں گے‘ آخرکب تک؟۔

Remembering Dhaka - By Tariq Mehmud

The month of December takes me back to the lanes and labyrinths of the city of Dhaka, where I spent some early years of my life. Memories of chattering with the rickshaw-pullers at the entrance of my hostel early in the morning and heckling with the fruit vendors around sunset at the crowded Saddar Ghaat on the edges of Boorrhi Ganga still haunt me, despite the tides of time having overtaken so much of life.
I landed in Dhaka after the 1965 war as an undergraduate student. For the next few turbulent years up till 1970, Salimullah Muslim Hall close to the well known Plassey Barracks was my abode. This hostel, known for its architectural elegance, was built in the earlier part of the century and named after Nawab Sir Saleemullah, who hosted the historic Muslim League delegation in 1906. The 1965 war with India had equally charged our Bengali compatriots, who demonstrated exemplary spirit but that soon tapered off. People felt left out and defenceless, though the Indian forces did not launch a full-scale attack on the eastern front. In a quick succession of events, Sheikh Mujibur Rehman launched his historic six points underlining complete regional autonomy for East Pakistan. In a year or two, he was charged under the Agartala conspiracy case, which created a further wedge between the two wings.
During all these years, Dhaka University pulsated with a flurry of activities. As a West Pakistani student, I could hang out with the young disciples of Maulana Maududi and Maulana Bhashani at the same time. My quest to understand different cross currents quite often swung me across the spectrum.
The Bengali intelligentsia, since the 1950s, was clear in its mind that Pakistan was one polity, but with two separate economies, distinct dispensations were needed for them to survive and forge ahead. While immersed in the Bengali ethos, I realised that despite some convergences in our everyday lives, we were far apart both culturally and linguistically. The way we lived, our eating habits, our sources of joy and sorrow were different. Our sense of history and vision for the future also set us apart. There had been no meaningful effort to take these factors into account. As a country, we needed exceptional dispensation while harmonising deep-seated diversity with occasional flashes of unity. This dilemma did exist in many other parts of the world too and led to many other countries evolving a national construct where conflicting claims could be safely managed.
Pakistan, as a new Islamic Republic, inherited a centrist mode of governance despite a compact amongst the constituent units, which were pluralistic and stood out for diversity. Geographical incongruity, because of the huge Indian land mass, with an avowed adverse posture against Pakistan, was a ground reality. This should have been persuasive enough for the decision-making elite to work out a system, which could have enabled the constituents of Pakistan’s federation to flourish along their distinct courses. Soon after independence, many other identities surfaced which were not acceptable to the centric leadership dominated by the Punjabi and Urdu-speaking elite of that time.
In a pluralistic society, language happens to be the most potent marker of group identity, which if duly recognised, gives access to opportunities and a space to blossom. The demand to accept Bengali as an official language was not only rubbished by the West Pakistani leadership, questions were also raised on the floor of the house of the Constituent Assembly regarding the patriotism of those pressing for this demand.
My stay in the hostel with Bengali students had been enriching. I dined and dressed like them, and spoke Bengali with ease and facility, which gave me a better understanding of the Bengali mind. As I reflect back, I feel that Bengal had never been a part of the mainstream subcontinent or the Indian land mass. Its rich, alluvial and deltaic character always marked this area with a sense of exclusiveness. Had there been no colonial sharing under the British, it may well have been yet another Muslim country on the fringes of Southeast Asia. This distinctiveness also ran through its political streams. The Pakistan movement did push this exclusivism into the background for a while but an average literate Muslim Bengali in that part was clear in his mind that his religion separated him from Hindu Bengalis, hence the quest for Pakistan, while his language and culture distinguished him from fellow West Pakistanis, all the more reason for complete regional autonomy.
The economic paradigm that we had been following largely focused on investment, capacity-building and incurring of huge expenditures in the western wing. The investment multiplier, which remained confined to the western wing, deepened the wedge between the two wings further. Empirical evidence of the growing economic disparity between the two parts can be found from the study of the five-year plans of the 1950s and 1960s.
What happened in 1971, among other reasons, was on account of the festering economic inequity, aggravated by cultural and linguistic cleavages, and lack of participation in key decision-making by Bengalis. Development economists, like Andre Gunder Frank and Samir Amin, had done a lot of work on uneven development and cultural cleavages by that time, but only a sensible leadership could have picked up these cues to avert disaster.
The creation of Pakistan, while riding on a religious crest wave, was indeed a defiance of geography; dismemberment of the country, on the other hand, was the revenge of this very geography for missing out on the building blocks so vitally needed in the process of nation-building.
On my last visit to Bangladesh a few years ago, I drove through the familiar roads of Dhaka along with an old Bengali friend, who had been a freedom fighter in the 1971 war. We drove to Shaheed Minar and sauntered there for a while. The place was buzzing with the presence of young university students. My host pointed towards the nearby classrooms. I was told that it was here in February 1952 that peaceful protestors of the language movement were fired upon on the orders of a maverick police officer from West Pakistan. The name of the officer was Masud Mahmood. He was the same maverick, who at one time was the eyes and ears of the late Zulfikar Ali Bhutto and then turned as an approver in the murder case against the former prime minister, resulting in his execution. Apart from monumental blunders, petty but violent acts like these at an individual level were also responsible for the agony and misery this country went through.
Published in The Express Tribune, December 16th, 2013.

Bangla Desh -- A Must Read by Aurya


Sunday, December 15, 2013

Polio Muhim

احتجاج کا کبھی کبھی فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے مسلسل قتل کے بعد خیبرپختونخوا کے پولیو کارکنان  کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انھوں نے مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس انکار نے پرویز خٹک کی حکومت میں بھی تحریک پیدا کر دی جس نے بالآخر نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر نشانہ بننے کے باوجود پولیو کے کارکنان آواز بلند نہ کرتے تو ہر طرف خاموشی ہی چھائی رہتی۔ دوسری حکومتوں کی طرح خیبرپختونخوا کی حکومت بھی اپنی کمزوریوں کو نہ ماننے اور آنے والے انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ماہر ہے۔ حال کے اوپر توجہ دلانے کے لیے چیخ و پکار کرنی پڑتی ہے۔ اس تمام معاملے میں سے جو نیا حل نکالا گیا ہے وہ بھی حیرت انگیز طور پر تجرباتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پولیو کی مہم خود چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چونکہ ہم سب کو بڑھک بہت پسند ہے لہذا ہر طرف سے خوشی کے شادیانے بجنے کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ اور تو اور آصفہ بھٹو کے دل میں بھی تحریک انصاف کی محبت جاگ پڑی۔ اُن سے منسوب کیے ہوئے بیان کے مطابق وہ عمران خان کی اس پولیو مہم میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں گی۔
یاد رہے کہ پچھلی مرتبہ اُن کا بھرپور حصہ اُن جاذب نظر تصاویر تک محدود تھا کہ جس میں محترمہ کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اور جو اُن کے والد محترم کی شدید خواہش کے نتیجے میں دیوقامت بینرز کی صورت میں پاکستان کے ہر کونے میں ہزاروں کی تعداد میں لگا دی گئی تھیں۔ تصویریں کھنچوانے کے بعد آصفہ بھٹو ہمار ے ملک کی قیادت کے بہترین طور طریقوں کے مطابق آرام سے برطانیہ تشریف لے گئیں جہاں سے انھوں نے یقنیاً پاکستان میں پولیو کے معاملے کو دوری کے باوجود انتہائی قریب سے دیکھا ہو گا۔ ظاہر ہے عمران خان اس قسم کی مدد کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس پاکستان کی دوسر ی بڑی سیاسی جماعت کا ڈھانچہ موجود ہے۔ جس کو متحرک کر کے وہ پولیو سے بچائو کی مہم کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ مہم کو تیز یا سست کرنے کا نہیں ہے۔ چیلنج اِن علاقوں میں میں اُن عناصر سے نپٹنے کا ہے جو حکومتی اراکین بشمول پولیس اور رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے افراد کو دن دیہاڑ ے گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور پھر اُن ہی محلوں میں گم ہو جاتے ہیں جہاں پولیو کی ٹیموں کی کاروائیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے اپاہج ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے ایک ریکارڈ ہے۔ پرویز خٹک حکومت کی بے اعتنائی اور اس معاملے سے چشم پوشی اسی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس معاملے کو یا تو سات پردوں میں چھپایا جاتا رہا اور یا پھر یہ توجیہہ دی جاتی رہی کہ یہ حملے اُس دہشت گردی کا حصہ ہیں جو امریکا کے ڈرونز کی وجہ سے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ عملی طور پر کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید پولیو ٹیموں پر حملہ آور عناصر بھی کسی نہ کسی طرح ڈرونز کے خلاف اپنے احتجاج کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے ایک مباحثے میں مردان سے پاکستان تحریک انصاف کے جواں سال قومی اسمبلی کے ممبر محمد علی بار بار اِن حملوں کو نظریاتی سوچ کا نام دیتے رہے۔ ٹوکنے اور یہ باور کروانے کے باوجود کہ یہ ایک گھناونا جرم ہے نظریہ نہیں وہ ان کارروائیوں کو ’’خا ص سوچ‘‘ ہی قرار دیتے رہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی ذمے داریاں پوری کرنے کی جستجو اور ڈرونز کی بحث نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ اُس کو ہر جگہ ہر ناکامی کی وضاحت کے طور پر بے دریغ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ اِس کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کو ڈرون کا حمایتی اور امریکا کا حواری قرار دے کر منہ پھیر لیا جاتا ہے ( کیا ہی اچھا ہو کہ کسی روز کوئی تمام جماعتوں کے مرکزی قائدین کی امریکا اور اُس کے اردگرد پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیل جاری کر دے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ مغرب زدہ کون ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے محترم اعظم سواتی، جو آج کل صوبے میں جماعت کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، اگر اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیں تو حقائق کی مزید واضح انداز سے سمجھ آ جائے گی)۔
جب تک یہ سوچ برقرار رہے گی اور اِن عناصر کو عام مجرموں کی طرح پکڑ کر قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی جو اِن حملوں کو منظم انداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں تب تک اس مہم کو کامیاب کروانا ممکن نہیں ہو گا۔ عمران خان کے میدان میں اُترنے سے فرق یہ پڑے گا کہ پولیس مزید چست ہو جائے گی اور پولیو کارکنان کا تحفظ صوبے کی حکومت کے لیے ترجیحات میں اُوپر آ جائے گا۔ مگر عمران خان سے ایک سوال ہے اور صوبہ بہت بڑا ہے۔ کہاں کہاں جائیں گے کتنے قطرے پلائیں گے۔ اور اگر یہی کرتے رہے تو دھرنا کون دے گا۔ پارٹی کے دوسرے معاملات کون دیکھے گا۔ بلدیاتی انتخابات کی تیاری کون کرے گا۔ ویسے بھی یہ قطرے ایک بار نہیں بار بار پلوانے ہوتے ہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں خوراک کی کمی کے شکار بچوں کی قوت مدافعت انتہائی کمزور ہے وہاں پر اس ویکسین کو موثر کرنے کے لیے اوسط سے زیادہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عمران خان کی طرف سے پولیو کمپین چلانے کی خبر کو پڑھ کے صوبے کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اسلحہ بردار نشانہ باز اپنا ہاتھ روک لیں گے تو یہ امن عارضی ہو گا۔ خیبر پختونخوا کے ایک پولیس افسر نے مجھے پولیو ٹیموں پر حملے کے اصل محرکات سے متعلق بتایا کہ دراصل صوابی، مردان، چارسدہ، پشاور، نوشہرہ اور ان سے جڑے ہوئے دوسرے اضلاع میں پولیو ٹیمیں اس وجہ سے خطرہ سمجھی جاتی ہیں وہ ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہر گھر کے دروازے کے پیچھے بچوں والے خاندان نہیں بستے۔
دہشت گردوں نے محلے اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہیں۔ وہ ان محلوں سے پولیس کو ہر صورت دور رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا جب بھی کوئی ٹیم اِن علاقوں کا رخ کرتی ہے اُس کو مار دیا جاتا ہے۔ اس جرم کا تعلق نہ کسی نظریہ سے ہے اور نہ ذاتی دشمنی سے۔ معاملہ دہشت گردی کے اڈوں کو محفوظ رکھنے کا ہے۔ میں نے اس پولیس افسر کو مشورہ دیا کہ یہ بات اپنے اعلی افسران اور سیاسی مشران تک پہنچائے میں تو محض لکھنے والا ہوں جس کو پڑھنے والے طرح طرح کی عینکیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لکھتا کیا ہوں پڑھا کیا جاتاہے۔ کہتا کیا ہوں سنا کیا جاتا ہے۔ لہذا بہتر ہو گا کہ یہ معلومات اُن حکام تک پہنچائیں جو پشاور زیریں اور بنی گالہ بالا میں بستے ہیں۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا سب کو سب کچھ معلوم ہے مگر فی الحال کام پولیو مہم کو تیز کرنے کا ہے۔ ہمار ے صوبے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ چند ایک ناراض بھائی اور بہنیں ہیں جو بات چیت کے بعد غصہ تھوک دیں گے۔ اور ایک دن عمران خان کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہونگے۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ دل میں اُمید کی شمع روشن ہو گئی ہے۔ اب اُس دن کا انتظار ہے جب یہ کر شمہ سامنے آئے گا اور ہم قیادت کے اِس کمال پر مل کر خوشیاں منائیں گے۔ اور ہاں ان خوشیوں میں آصفہ بھٹو کی طرف سے ڈالا ہوا حصہ بھی یاد رکھیئے گا۔

CJ k lye 1 Genuine Acha Mashvra

Na 9 Mann Tail ho ga.. Na Radha Nachey Gi

Akela Shakhs Kab tak Larta - By Rauf Klasra


Unfriended from Facebook?

10 ridiculous reasons for which I was ‘un-friended’ and blocked on Facebook

I was sent to the gallows on Facebook. PHOTO: FACEBOOK
I am probably one of the very first people after Mark Zuckerberg to have joined this most readily available medium of connecting with old friends, existing colleagues and future soul mates; yes, I am talking about Facebook.
Like every bald-headed, pot-bellied film director who does not even have the contacts to arrange the appropriate number of extras to dance behind a newbie actress in his never-to-hit-top-charts upcoming movie, but still insists that he is the mentor behind the success of every highest-paid star, I also take this privilege of being that one friend-in-need who invited nearly every close pal to this medium.
If many of my readers are younger than me, let me clarify that back in the stone-ages, Facebook was a ‘by invite only’ social medium enjoyed exclusively by the sprouting social media royals. The ones who were not lucky enough to know me, while openly gossiping about the alleged affair of the Teacher’s Assistant (TA) with someone whom the TA had never even seen, would contact (read request) me via other media such as friends and friends of friends.
As my Facebook brood kept multiplying, so did my stalking skills.
There were days when I would go to Liberty Market and practically everyone I saw, seemed to be a known face, thanks to my Facebook tourism skills. This was a world where only new-borns and aliens arrived like divas on a red carpet. There seldom existed an exit door until I realised, after opening a friend’s cousin’s sister-in-law’s profile, that I had been deleted.
Something rang inside my head.
I sat myself down and decided to find what else Facebook had in store for me. Many of the ‘friends’ I had on my list seemed to be missing. While some had taken this opportunity to simply ‘un-friending me’, others had actually taken the pain of ‘blocking’ me, thereby completely removing my existence from their (Facebook) lives.
So, instead of enjoying my holiday and going out for a walk in the beautiful autumn evening of Islamabad, I sat in my completely dishevelled hotel room trying to sort this serious life-wrecking mess out. It seems that I lost some ‘friends’ on Facebook due to the following reasons:
1. I practically ridiculed every Naik Parveen in sight by sharing updates from the famous page and also created my own re-mixed DJ versions.

I am sorry but I cannot stand your oozing love for your to-be or not-to-be hubby-licious.

Photo: Facebook page (https://www.facebook.com/NykPrwynSiynrumNaikParveenSyndrome)
2. I am not a mother-in-law yet. I do not have a son who I married off only in the hopes of being blessed with a grandson right after (or even a little before) nine months of the wedding. So, I cannot celebrate your pregnancy updates.

Photo: Facebook page (https://www.facebook.com/groups/213703592070993/)
Frankly, a doctor might provide better solutions than your Facebook friends.
3. Your child means the world to you. I get it. But he’s NOT my world. His pictures while pooping, throwing up, eating roti with saalan dripping from his tiny mouth are actually a tad disgusting.

Photo: Facebook page
All I can say to you is,
“Get a life!”
And if that means that you need to delete me, well, so be it!
4. “Happy birthday IK. We all love you. And the ones who don’t are not qualified to fall in the homo sapiens category of animals.”
Seriously?
I guess I fell in that category because apparently I am not friends with these gaga IK lovers anymore.
Well, their loss.
5. I was ‘un-friended’ for this status,
“You are a second or two more than the biological age that socially qualifies for pouting at every given picture.”
I really do not think I was saying anything wrong. But I guess I offended some kitty.
6. And then, there was this status,
“Yes, I am a grammar Nazi. If I am courteous enough not to take a red pen and pluck at your spelling errors, do not mind my shared posts from the grammar pages.”

Photo: Facebook page
I guess someone didn’t like being told that their spelling and punctuation was all over the place.
7. When did He in the Heavens promise paradise to those who were as ‘Saudi’ as possible? How does every catastrophe turn out to be a Yahudi sazish (Jewish conspiracy)? I ask because I really do not get it. Apparently my asking was a sazish too… yup, un-friended again!
8. I gossiped about her fake lashes falling in a cup of coffee only with my best friend’s aunt and a few others. How could she delete me for this precious piece of information that remained between us only?
9. No, I do not want to know where you are at every minute of the day! Or who you are with!

Photo: Pinterest
10. Does disagreeing with every post, by someone who I do not like very much, qualify me for being blocked on Facebook?
Sadly, I think it does.
Can you please tell me why I am being sent to the gallows on Facebook?
I would really appreciate it.
Much love.