Wednesday, December 18, 2013

GT Road se Pegham By Talat Hussain

یہ جی ٹی روڈ بھی غضب کی جگہ ہے۔ یہاں حقیقی پاکستان بستا ہے۔ ایک طرف سے لے کر دوسری طرف تک کے نظار ے آپ کو تمام پاکستان کا سفر کرا دیتے ہیں۔ جب بھی میں اپنی عادت کے مطابق علی الصبح اپنے سفر کا آغاز کرتا ہوں تو بیسیووں دیکھی بھالی منزلیں دوبارہ سے نئی خبر کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ یہاں پر آپ کو ٹرکوں میں جانور اور اُن کے ساتھ ٹھونسے ہوئے اکڑوں بیٹھے  انسان سفر کرتے ہوئے ملیں گے۔ ساتھ سڑ ک پر لکھی ہوئی یہ عبارت بھی نظر آئے گی کہ آگے جی ٹی روڈ ہے احتیاط کیجیے۔ سڑ ک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے بلاکس کو پھلانگتے ہوئے پیدل چلنے والے، برقعے اور چادر میں لپٹی ہوئی گھبرائی ہوئی خواتین جو سڑ ک کے ایک کنار ے سے دوسری طرف کا فاصلہ طے کرنے میں گھنٹے لگا دیتی ہیں، کسی بھی لمحے جست لگا کر آپ کو حیران کر دیں گی۔ ٹر ک ڈرائیور جو ہمیشہ ایک طرف اشارہ دے کر دوسری طرف مڑ جاتے ہیں، ہر کوس پر فرشتہ اجل کی طرح موجود ہوتے ہیں۔ تانگے، گدھا گاڑیاں، ٹوپیوں اور کمبلوں میں چھپے ہوئے موٹر سائیکل سوار، ننھے منے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اسکولوں کی جانب گامزن بچے۔ راولپنڈی سے کھاریاں تک کے حصے میں آپ کو اسکول جاتے ہوئے بچے اُمید بھی دلواتے ہیں اور گہری افسردگی میں مبتلا بھی کر دیتے ہیں۔
خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ ہماری عوام تعلیم کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ماں باپ اپنے جسم کی زکوۃ دے کر جگر گوشوں کو میلوں دور اسکول میں صرف اس امید پر بھجواتے ہیں کہ اُن کے خیال میں تعلیم کے بغیر انسان نامکمل ہے۔ ہاں اگر کسی نے اِس ملک میں طاقت اور دولت حاصل کرنی ہے تو اُس کے لیے یہ کشٹ کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ مگر افسوس اُن مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہوتا ہے جو یہ بچے روزانہ تعلیم کے نام پر برداشت کرتے ہیں۔ چنگ چی رکشے اور ہر طرف سے بند ویگنیں جانوروں کی طرح لوگوں کی اولادوں کو لاد لاد کر اسکول کے سامنے پھینکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میں پھینکتی ہوئی اِس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ نیند سے محروم ڈرائیور اور اُس کا ساتھی بچوں کو ویگن سے اُتارتا نہیں بلکہ کھینچ کر دھکا ہی دیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اِن بچوں کے والدین کو حکومتیں اور ریاست عرصہ دراز سے کھینچ کر دھکا دے رہی ہیں۔ جن کے پاس ویگن کا کرایہ نہیں ہوتا وہ بستوں کے بوجھ کو کمر پر لادے ہوئے دھند زدہ محلوں میں سے نکل کر مٹی سے اٹے ہوئے اسکولوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ جو حکومتیں طلباء اور طالبات کو مہذب انداز سے اسکول نہیں پہنچا سکتیں وہ اِس قوم کو روشن منزل تک کیسے لے جائیں گی۔
پاکستان کے حالات کی طرح جی ٹی روڈ بھی کیفیت تبدیل کرنے میں یکتا ہے۔ کبھی کمر توڑ ہچکولے اور کبھی شیشے کی طرح صاف سڑک، کبھی بڑی بڑی تفریح گاہیں اور بین الا قوامی مہر شدہ خرید و فروخت کی اشیا ء سے بھرے ہوئے پلازے اور کبھی گندگی اور غلاظت سے اٹے ہوئے گائوں، کہیں کنٹونمنٹ کا منظم نظام اور کہیں اللہ کے بھروسے ادھم مچاتی ہوئی ٹریفک۔ یہاں پر بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نونا پہلوان اپنی تشہیر سڑک کے کنار ے بورڈ لگا کر کرتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی سیٹھی دولہا سینٹر بھی نظر آجاتا ہے۔ یہ امریکی بھی بہت شرارتی ہیں، کرکٹ اور میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے بعد بھی شادیوں کے کاروبار میں بھی حصے دار بن گئے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ سیٹھی دولہا سینٹر میں شادیاں زیادہ ہوتی ہوں گی یا طلاقیں۔ اس نام کے ساتھ کوشش کے باوجود خیر کا پہلو نہیں جوڑا جا سکتا۔
آج کل چونکہ دھند نے ہماری سڑکوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے لہذا میلوں تک آپ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بھی مدہم لائٹوں کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ صورت حال سے تنگ آ کر میں نے اخبار اٹھا لیا۔ بڑی بڑی خبروں کے ساتھ ایک چھوٹی خبر پشاور کے حوالے سے بھی لگی ہوئی تھی جہاں پر چار پولیس والے سلیمان خیل نامی گائوں میں ایک بم کو ناکارہ بناتے ہوئے اللہ کو پیار ے ہو گئے۔ سب انسپکٹر عبدالحق کی عمر61 سال تھی جب کہ کاشف ولی اور امتیاز بالترتیب 33 اور 30 سال کے تھے۔ چوتھا امین الحق بھی درمیانی عمر کا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ چاروں اس علاقے میں بارود سے بھرے ہوئے ایک لفافے کو احتیاط سے ہٹاتے ہوئے اُس بم کا شکار ہو گئے جو اُن کے انتظار میں قریب ہی نصب تھا۔ اس سے پہلے اُنہوں نے کئی مرتبہ اس طرح کے کئی خطرناک کام کامیابی سے سرانجام دیے تھے۔ درجنوں تباہ کن موت کے آلات کو بہادری کے ساتھ ناکارہ بنا کر سیکڑوں جانوں کو بچانے والے یہ تجربہ کار لوگ اس مرتبہ جانبر نہ ہو پائے۔ عبدالحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایسے موقع پر اپنی خدمات خود سے پیش کر دیا کرتا تھا جہاں پر بڑے بڑوں کا دل لرز جاتا تھا۔ بم بنانے والوں نے اِن  کو نشانہ بنا کر صوبہ خیبرپختونخوا کی بم ناکارہ کر نے کی صلاحیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ویسے بھی اس شعبے کی طرف اب کوئی آنے کو تیار نہیں۔130 کے قریب نوکریاں درخواستوں کا انتظار کر رہی ہیں۔ لیکن ماہرین کے مسلسل مار ے جانے کے بعد اِس کام کو کرنے والے کنی کتراتے ہیں۔ ویسے کنی کترائیں گے نہیں تو کیا کریں گے اس شعبے کی حالت بس جی ٹی روڈ جیسی ہے۔ نہ اِن کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں ہیں اور نہ ہی وہ لباس جو دھماکہ خیز مواد کے پھٹ جانے پر موثر انداز سے جان کا تحفظ کر پاتا ہے۔ ظاہر ہے پرویز خٹک کی حکومت پچھلی حکومتوں کی طرح ان شعبوں پر وسائل خرچ کرنا ایک فضول کوشش سمجھتی ہے۔ ویسے بھی بم ناکارہ کرنے والوں کا تحفظ وی آئی پی کے تحفظ سے زیادہ اہم تو نہیں ہے۔ اصل ہدف سیاسی قیادت کو بچانے کا ہے، یہ چھوٹے موٹے افراد اور کارکن ہوتے ہی مر  جانے کے لیے ہیں۔ اِن کے جسم اور پرخچے دونوں برابر ہیں۔ زندہ ہیں تو کس کام مر جائیں گے تو کیا نقصان ہو گا۔ تمام توجہ انفرادی قیادت کو محفوظ بنانے پر صرف ہونی چاہیے۔ عبدالحق جیسے لوگوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک آدھ وزیر اُن کے جنازے میں شریک ہو جائے گا۔ اور ہاں اگر میڈیا میں خبریں دو چار زیادہ چھپ گئیں تو شاید عمران خان اس پر دو لفظ بول دے، اس سے زیادہ کیا کیا جا سکتا ہے ان بم ناکارہ بنانے والے ناکارہ لوگوں کے لیے۔ اور ہا ں یہاں پر اُس سہولت کا ذکر بھی کرنا چاہیے جو اس شعبے میں کام کرنے والوں کو خاص طور پر مہیا کی گئی ہے۔
اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر ان سب لوگوں کو 50 روپے کا خطیر الائونس دیا جاتا ہے۔ جی ہا ں! 50 روپے۔ بڑی رقم ہوتی ہے۔ اس سے زندگی سنور جاتی ہے۔ چینی کے کارخانے لگ جاتے ہیں۔ پرائیویٹ جیٹ خریدے جا سکتے ہیں۔ کرسمس لندن میں اور نئے سال کی پارٹی پیرس میں کی جا سکتی ہے۔300 کنال کا گھر لیا جا سکتا ہے۔ عالی شان فارم ہائوس کے مالک بن سکتے ہیں۔ اتنے بڑ ے الائونس کے باوجود لوگ اب یہ نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے ناشکری قوم۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس قوم کا رویہ وہی ہے جو پنجاب میں ہے۔ میاں نواز شریف نے اتنی چاہت سے موٹروے بنوائی آرام دہ سفر کو یقینی بنایا مگر پھر بھی یہ جاہلوں کی طرح جی ٹی روڈ سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ وہاں کی خا ک ہی چھانتے رہتے ہیں۔ اُس کے اردگرد جیتے اور وہاں کے حادثات میں ہی مرتے رہتے ہیں۔ جی ٹی روڈ سے عوام بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مثلاً  اگر وہ ایک بورڈ پر لکھی ہوئی اس ہدایت کو ہی اپنا لیں تو وہ اپنے پیغام کو اپنی قیادت تک بہترین انداز میں پہنچا سکتے ہیں۔ ہدایت یہ ہے ’’ اشاروں کو صحیح طریقے سے استعمال کریں‘‘ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے اس کے اردگرد رہنے والے اس پر خجل خوار ہونے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ آیندہ جب کوئی قائد انقلابی تبدیلی کی بات کرے تو اپنے ہاتھوں کے اشاروں کا صحیح طریقے سے استعمال کریں، اس کو آپ کی بات سمجھ آ جائے گی۔

Post a Comment

No comments:

Facebook Blogger Plugin: By RNHckr.com

Post a Comment