Tuesday, July 30, 2013

MQM and N League - A Balanced Analysis.. A Realistic one

 A Realistic Analysis of N and MQM Alliance by Nusrat Javed...

اپنے ’’شریکوں‘‘ کی دیوار گرانے کے جنون میں مبتلاپنجابی محاورے والے ہمارے لوگ ابھی تک یہ بات سمجھنے کو تیار
ہی نہیں ہو رہے کہ سیاست کا دھندا کچھ بہت ہی بنیادی اور ضروری سمجھوتے کیے بغیر چلایا ہی نہیں جا سکتا۔ اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کی صلاحیتوں سے محروم لوگوں کے انا پرست غصے اور تعصبات کو مزید ہوا دینے کے لیے ہمارا بہت ہی مستعد اور آزاد میڈیا بھی میدان میں آ چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صدارتی امیدوار کو ساتھ لے کر ایم کیو ایم کے مرکز پہنچے تو ہماری اسکرینوں پر ’’تھرتھلی‘‘ مچ گئی۔
کسی نے یاد رکھنا گوارا ہی نہ کیا کہ الطاف حسین کے پیروکاروں نے نواز شریف کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے وقت بھی ان کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تاثر کچھ اس طرح کا پھیلایا گیا کہ صرف ممنون حسین کو صدر منتخب کرانے کے لیے نواز لیگ والوں نے ’’اصولی سیاست‘‘ بھلا دی ہے۔ ٹیلی وژن والوں کے پاس تمام سیاسی رہنمائوں کے بیانات کی بے تحاشہ فوٹیج موجود ہوتی ہے۔ اسے استعمال میں لایا گیا۔ چن چن کر وہ کلپس چلائی گئیں جن میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف بڑی ہی بازاری زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان کلپس کو ڈار اور ممنون حسین کی نائن زیرو آمد کے ساتھ جوڑ کر بیک گرائونڈ میں ’’کیا ہوا تیرا وعدہ‘‘ قسم کے گانے چلائے گئے۔ Infotainment کا ایک چسکے دار Segment بن گیا جو رمضان کے خبروں کے حوالے سے ’’مندے‘‘ مہینے میں بڑا کام آیا۔
میں ذاتی طور پر ایم کیو ایم کا مداح نہیں ہوں۔ اس جماعت کے اندازِ سیاست کے بارے میں اپنے تحفظات کا ہمیشہ کھل کر اظہار کرتا رہا اور ایسا کرتے ہوئے ان دنوں بھی خاموش نہیں رہا جب ایم کیو ایم پر تنقید کرنا کسی صحافی کے لیے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ ان تحفظات کے باوجود میں اس بات پر اصرار کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا کہ ان وجوہات کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے جو ایم کیو ایم کے قیام اور اس کے فروغ کا باعث بنیں۔ یہ ٹھوس وجوہات نہ ہوتیں تو ایم کیو ایم اتنے برسوں سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتی۔ ٹھنڈی سوچ بچار کی عادت سے محروم لوگوں کے لیے آسان بات یہ کہہ دینا تھا کہ جنرل ضیاء اور اس کی ’’ایجنسیوں‘‘ نے 1980 کے آمرانہ نظام کو بقاء دینے کے لیے سندھ کو دیہی اور شہری بنیادوں پر تقسیم کر دیا۔
ہوسکتا ہے یہ الزام درست ہو۔ مگر ضیاء الحق کے بعد ایک اور فوجی آمر جنرل مشرف نے بھی تو ایک جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ق) بنوائی تھی۔ اس نے پانچ برس تک مرکز،پنجاب اور سندھ میں حکومت بھی کی۔ آج کل اس جماعت کا کوئی اتہ پتہ بھی معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کی اپنی ٹھوس بنیاد موجود نہ ہوتی تو 1986 میں مقامی سطح سے شروع ہو کر 2013 تک مرکز اور سندھ کی تمام حکومتوں میں شمولیت کے بعد اس جماعت کا خاتمہ بھی ہو گیا ہوتا۔ خاص طور پر اگر ہم وہ دن بھی یاد کر لیں جب محترمہ بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے دوران اس جماعت کے کارکنوں پر ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے نام پر بڑے سخت ایام آئے۔
سیدھی سی بات ہے کہ ’’دو قومی نظریے‘‘ کے نام پر بنے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ نے 1947 کے بعد بھارت کے ان علاقوں سے جہاں اُردو بولی جاتی تھی آئے مہاجرین کی دوسری اور تیسری نسلوں کو بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر اس زمین اور اس پر حاوی ثقافت کا بھرپور حصہ نہیں بنایا ہے۔ دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی نے پہلے مشرقی پاکستان اور پھر ہمارے تین چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی کو فروغ دیا۔ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں نے جب اپنے اپنے احساسِ محرومی کی بنیاد پر بھرپور سیاست شروع کر دی تو اُردو بولنے والے مہاجرین کی تیسری نسل کے نوجوانوں کو بھی اپنا مخصوص احساس محرومی شدت سے یاد آ گیا۔
الطاف حسین نے بڑی ذہانت اور مہارت سے ان کے جذبات کو سمجھ کر بڑی محنت سے ایم کیو ایم نامی تنظیم کھڑی کر دی۔ جب یہ تنظیم اقتدار کے دھندے میں اپنا حصہ لینا شروع ہوئی تو اس میں موجود تمام اچھائیاں اور برائیاں بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ میرے جیسے ایم کیو ایم کے ناقدین کی نگاہیں اسی جماعت کی اچھائیوں سے زیادہ برائیوں پر مرکوز رہتی ہیں۔ مگر ان کا ذکر کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ 1988 سے اب تک جتنے بھی قومی سطح کے انتخابات ہوئے ان کے نتائج صاف طور پر بتاتے رہے کہ سندھ کے شہروں میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک پوری طرح قائم ہے۔ اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔
ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کی حقیقت سے قطع نظر سچ یہ بھی ہے کہ 2005کے بعد سے ایم کیو ایم کے بہی خواہوں کی ایک بڑی تعداد نے بتدریج اس جماعت کے علاوہ دوسرے راستوں کی تلاش شروع کر دی۔ پاکستان کی نام نہاد Mainstream پارٹیوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ ان لوگوں سے سیاسی روابط بناتیں اور بڑھاتیں۔ کوئی ایسا پیغام دیتیں جہاں زبان اور نسل کے اختلاف سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لوگ ’’ذمے دار شہری‘‘ بن کر اس ملک کے جمہوری نظام میں حصہ لیتے اور ایک ایسے معاشی نظام کے قیام کی کوششیں کرتے جہاں ہر شخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق ترقی کے مواقع ملتے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اس ضمن میں سوچنا تک گوارا نہ کیا۔ عمران خان میں ان جماعتوں کی بے حسی کے باعث پیدا کردہ خلاء کو پورا کرنے کے بھرپور امکانات پائے جاتے تھے۔ انھوں نے کراچی میں صرف ایک جلسہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔
انتخابی مہم کی گہماگمی میں بھی خاموشی سے کراچی گئے اور پھر قائد اعظم کے مزار پر حاضری دے کر واپس آ گئے۔ ان کی اس بے اعتنائی کے باوجود 11 مئی کے دن ان کی جماعت کو کراچی کے تمام حلقوں سے قابلِ قدر ووٹ ملے اور ڈاکٹر عارف علوی تو گویا ایک تحریک کے ذریعے قومی اسمبلی تک پہنچے۔ تحریک انصاف نے مگر انتخابات کے بعد کراچی کو بھلا دیا اور ایم کیو ایم برطانیہ میں پیدا ہونے والی مشکلات کے باوجود ابھی تک اپنی Core  Constituency کو اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہے۔ آپ اس کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور نہ ہی مشکل کی اس گھڑی میں ایسا نظر آنے کے متحمل کہ جیسے ان لوگوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ سیاست میں دوسروں کو دیوار کے ساتھ نہیں اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایوانِ صدر کے لیے آگرہ سے کراچی آئے ممنون حسین کو اپنا امیدوار بنا کر نواز شریف نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے اور انتخابات میں اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگنا کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا بنا کر دکھایا گیا ہے۔

Post a Comment

No comments:

Facebook Blogger Plugin: By RNHckr.com

Post a Comment