دہشت گردی کے حل کے بعد دوسرے معاملات
اب چونکہ ہم نے سیاسی دانش مندی اور عسکری دور اندیشی
کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ لہذا اب ہم سب کو
اپنی توجہ ان معاملات کی طرف مبذول کرنی چاہیے جو پچھلے کئی برسوں کے برے
حالات کے ہاتھوں ہماری نظروں سے اوجھل ہوئے رہے ہیں۔ خداوند تعالیٰ کی رحمت
سے اس ملک نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے توسط سے قومی اتحاد اور یک جہتی
کا وہ نظارہ دیکھ لیا ہے جس کی تڑپ لیے ہمارے ملک کے بانیان اس دنیا سے
رخصت ہو گئے۔ طویل شورش کے خاتمے کا وقت قریب ہے۔ ہم انشاء اللہ تعالی بات
چیت کے ذریعے اس ملک اور قوم کے لیے وہ حالات پیدا کر دیں گے جو اس سے پہلے
کبھی کسی نے نہیں دیکھے۔ خوشیاں دور نہیں ہیں امید اور ہمت کا دامن نہیں
چھوڑنا۔ سیاسی قیادت ملک کو سیدھے رستے پر لا رہی ہے۔
اب آئیے !دوسرے حل طلب معاملات کی طرف‘ دو دن پہلے مجھے ایک ای میل
موصول ہوئی جس میں پاکستان کی ایک محققہ نے اپنی بپتا کہانی لکھی تھی۔ میرے
خیال میں ان کا مسئلہ ذاتی نہیں اس پالیسی سے متعلق ہے جو ان جیسے کئی
دوسرے سنجیدہ محب وطن پاکستانیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ خط لفظی ترجمے کے
ساتھ آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ اس کا متن ازخود وضاحت کر رہا ہے مسئلہ کیا
ہے۔
’’میں اس بات کو بخوبی سمجھتی ہوں کہ آپ ہمارے ملک کے اولین صحافیوں
میں سے ایک ہیں جو حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں، اور قومی ترقی اور
تبدیلی کے ایک ایماندار موجب کی حیثیت سے اُن حکومتی اور قومی معاملات پر
زور دیتے ہیں کہ جن سے پاکستان کے عوام عام لوگوں کو درپیش مسائل کو سمجھ
سکیں۔ سب سے پہلے میں آپ کو آپ کے کام کے لیے مبارک باد پیش کرتی ہوں جو
آپ اس ملک اور قوم کے لیے کر رہے ہیں۔
آج میں آپ کو ایک ایسے ایشو کے بارے میں لکھ رہی ہوں جس کہ متعلق مجھے امید ہے کہ آپ اپنا وقت نکال کر ضرور غور کریں گے۔
میرا نا م درشہوار ہے ۔میں لندن امپریل کالج میں پی ایچ ڈی کی طلباء
ہوں۔ میں کھانے پینے کے اجزاء اور چھاتی کے سرطان پر تحیقق کر رہی ہوں۔ میں
نے اسلامیہ کالج بہاولپور سے ڈی۔ فارمیسی گولڈ میڈل کے ساتھ مکمل کی۔ اور
میری اس پی ایچ ڈی کی تمام فنڈنگ ایچ ای سی کر رہا ہے۔
میرے اس اسکالر شپ کی تمام فنڈنگ حکومت پاکستان نے کرنی تھی۔ میری پی
ایچ ڈی کے وسط میں مجھے ایچ ای سی کی طرف سے ایک غیر محتاط ای میل موصول
ہوئی جس میں کہا گیا کہ ہم آپ کی فیس کی ادائیگوں سے قاصر ہیں۔ یہ میر ے
لیے ایک نامناسب دھچکا تھا۔ میرا تعلق ایک متوسط بیک گراونڈ سے ہے اور میں
اس قابل نہیں کہ اتنی بھاری ادائیگی کر سکوں۔ ایک سال پہلے میں نے ڈاکٹر
لغاری سے جو کہ اُس وقت ایچ ای سی کے چیئرمین تھے، رابطہ کیا اور اُن کو
فیس میں ہونے والے اُ س اضافے کے متعلق بتایا جو کہ اسکالرشپ اسکیم کا حصہ
نہیں تھا اور اُن کو یہ بھی کہا کہ میں واپس آ جاتی ہوں اگر ایچ ای سی
اضافی رقوم ادا کر نے سے قاصر ہے۔ اُس وقت ڈاکٹر لغاری نے مجھے یقین دہانی
کروائی کہ یہ اسکیم PC-1 کا حق ہے اس کو اپ گریڈ کیا جائے اور یہ میری
تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ڈاکٹر ثمر مبارک
مند (جو کہ پلاننگ کمیشن میں ہیں) اس سات سال پرانی اسکیم کی اپ گریڈیشن
کے لیے بات کی اور یہ یقین دلایا کہ اس کام کو جلد ہی کر دیا جائے گا
کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے طلباء جو بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں متا
ثر ہو رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اندرونی اسٹاف نہیں چاہتا کہ یہ کام
ہوں۔
اب حالت یہ ہے کہ ایچ ای سی نہ صرف اُس اضافی رقوم کی ادائیگی سے انکاری
ہے، جس کی یقین دہانی مجھے کروائی گئی تھی، بلکہ عام فیس جو کہ معاہدے کے
مطابق کرنی تھی اُس سے بھی منکر ہو گیا ہے۔ میرا کسی حکومتی عہدیدار سے
کوئی تعلق نہیں کہ جس کے ذریعے میں اپنی استدعا پہنچا سکوں۔ میں خود کو بہت
بے بس محسوس کر رہی ہوں ‘میرا کیرئیر اور مستقبل بے یقینی کا شکار ہے۔
ضرورت کے وقت مدد کے لیے انسان کو اپنے ملک کے باشندوں پر انحصار کرنا
چاہیے لیکن یہاں میں دھوکا کھایا ہوا محسوس کر رہی ہوں۔ یہاں میں کوئی بیان
نہیں دینا چا ہوں گی کہ میری تعلیم کے لیے خرچ ہونے والا پیسہ کہاں اور
کیوں گیا۔ لیکن میں قطعی طور پر یہ محسوس کر رہی ہوں کہ اس طرح ہم ہنر مند
اور ذہین لوگوں کو کھو دیں گے جو کہ ہمارے ملک کو بھرپور طریقے سے ترقی
کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
واسلام
درشہوار، پی ایچ ڈی اسکالر
اس ملک میں سنجیدہ کام کر نے والے کم ہیں۔ اگرچہ صلاحیت کی کمی نہیں۔ ایچ ای سی نے پچھلے کئی سالوں میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترویج کے لیے قابل تعریف کام کیا ہے۔ مگر اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر اولین ہدف میں بدلنے کے لیے اس قسم کے مسائل کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ تحقیق پالیسی کے نئے زاویے کھولتی ہے۔ سوچ کی اُڑان میں اضافے کا باعث بنتی ہے، ملک کے بہترین تعارف کا باعث بنتی ہے۔ ملک سے باہر پڑھنے والے اگر ملک میں واپس نہ بھی آئے پھر بھی کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں۔
درشہوار، پی ایچ ڈی اسکالر
اس ملک میں سنجیدہ کام کر نے والے کم ہیں۔ اگرچہ صلاحیت کی کمی نہیں۔ ایچ ای سی نے پچھلے کئی سالوں میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترویج کے لیے قابل تعریف کام کیا ہے۔ مگر اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر اولین ہدف میں بدلنے کے لیے اس قسم کے مسائل کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ تحقیق پالیسی کے نئے زاویے کھولتی ہے۔ سوچ کی اُڑان میں اضافے کا باعث بنتی ہے، ملک کے بہترین تعارف کا باعث بنتی ہے۔ ملک سے باہر پڑھنے والے اگر ملک میں واپس نہ بھی آئے پھر بھی کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذمے داران کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔ اور
اگر اس خط میں موجود شکایت درست ہے تو اس کا فوری ازالہ ہونا چاہیے۔ وزیر
اعظم نواز شریف اور عمران خان جیسے دوسرے سیاست دان چونکہ دہشت گردی کے
جنجال سے ملک کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہذا اُن سے بھی گزارش ہے کہ
تعلیم کے مسائل پر توجہ دیں۔ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اگلے
چند ہفتوں میں ہر طرف خوشیوں کی بہار آ جائے گی اس بہار میں ایک رنگ
تعلیم کی بہتری کا بھی ہونا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment