Showing posts with label Bangladesh issue. Show all posts
Showing posts with label Bangladesh issue. Show all posts
Saturday, December 21, 2013
Tuesday, December 17, 2013
Monday, December 16, 2013
Kia Ye Insaaf Hai??
جب بنگلہ دیش بنا تو اس وقت شیخ مجیب الرحمان دیوتا تھے، پھر بھی ان کا
دھیان اس طرف نہیں گیا کہ بنگالی قوم کے احساس ِ محرومی ، غصے اور جذبہِ
انتقام کو قومی تعمیر کی جانب مرتکز کرکے خون میں نہائی آزادی سے ایک
شونار بنگلہ ( سنہری بنگلہ دیش ) پیدا کرلیا جائے۔ایسا بالکل ممکن تھا
کیونکہ اس وقت قومی اکثریت شیخ مجیب کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے پر
آمادہ تھی۔لیکن گرم لوہا ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔مجیب الرحمان کو جو مختصر
قیمتی وقت میسر آیا اس کو شخصی و خاندانی حکمرانی پروان چڑھانے اور ملک کو
یک جماعتی آمریت کی جانب دھکیلنے اور کولوبریٹر ایکٹ اور وارکرائم
ٹریبونل ایکٹ پر لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے صرف ساڑھے چار
برس بعد ہی غصہ غصے کو کھا گیا۔شیخ مجیب کے پورے خاندان کو انھی میں سے کچھ
فوجیوں نے صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جنہوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ
لیا تھا۔بس دو بیٹیاں ریحانہ اور حسینہ بچ گئیں۔
ہاں انیس سو اکہتر کے مشرقی پاکستان میں انسانیت کو ننگا نچوایا گیا تھا۔ہاں جسٹس حمود الرحمان کمیشن کے چھبیس ہزار سے مجیب حکومت کے تیس لاکھ کے درمیان کی کسی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ہاں پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان عورتیں ریپ ہوئیں۔ہاں البدر ، الشمس ، المجاہد اور رضاکار متحدہ پاکستان کی حمایت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بنے اور مکتی باہنی نے شونار بنگلہ کے حصول کے لیے غیر بنگالیوں کو جہاں موقع ملا گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ہاں خانہ جنگیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آیندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔چند لوگ ایک دوسرے کے ولن ہوں گے لیکن اجتماعی بھگتان نسلوں اور پورے پورے نسلی و مذہبی گروہوں کو سہنا پڑے گا۔اس کے باوجود کہیں تو لکیر کھینچنی ہی پڑتی ہے کہ بس جو ہو گیا سو ہوگیا۔ جو آزادی مل گئی اس کے صدقے خونی ماضی کو یادوں کی کوٹھڑی میں کسک کی کیل سے ٹانگ دو اور آگے کا سوچو۔جو نادم ہو اسے معاف کردو جو نادم نا ہو اسے معاف کر کے نادم کردو۔
کیا مکہ میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہی نہیں ہوا تھا ؟ کیا ڈیڑھ ہزار برس بعد الجزائریوں نے نوآبادیاتی فرانسیسیوں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا جنوبی افریقہ کے کالوں نے سفاک گوروں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا سابق یوگوسلاویہ میں ہزاروں سربوں ، کروٹوں اور مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد یہی نہیں ہوا۔کیا یہ بات سمجھنا اور سمجھانا راکٹ سائنس ہے کہ منتقم غصہ دوسرے سے زیادہ خود کو اندر سے سنگسار کرتا رہتا ہے۔ کچھ کو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے جیسے نیلسن منڈیلا وغیرہ۔ کچھ کو بیالیس برس میں بھی سمجھ میں نہیں آتی جیسے حسینہ واجد وغیرہ۔
پھر بھی اگر آپ ماضی کا کھاتہ معافی کے بجائے انصاف سے صاف کرکے دل کو تسکین دینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔مگر انصاف کا کھیل ذرا ٹیکنیکل ہے۔اس راہ میں پھونک پھونک کے رکھے جانے والے ننانوے قدموں کے بعد ایک سوواں قدم بھی ٹھیک ٹھیک ہی پڑنا چاہیے ورنہ انصاف کی ساری مسافت بے کار ، پلید اور ملیامیٹ ہونے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
کتنا اچھا لگا تھا جب شیخ مجیب الرحمان بطور وزیرِ اعظم فروری انیس سو چوہتر کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔معافی تو تب بھی پاکستان نے نہیں مانگی تھی۔جماعتِ اسلامی تو تب بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے چلانے کے لیے بنگلہ دیش نامنظور کا پورا زور لگا رہی تھی۔ایک سو پچانوے پاکستانی فوجی افسر تو تب بھی بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی فہرست میں تھے۔لیکن جب ان پر اس لیے مقدمہ نہیں چل پایا کہ دو لاکھ بنگالی شہری مغربی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان ایک سو پچانوے کے مقامی ہوتوں سوتوں پر چالیس برس بعد مقدمہ چلانے کا جواز عجیب سا لگتا ہے۔
سن تہتر میں جب جنگی جرائم کا پہلا ٹریبونل بنا تو بنگلہ دیش میں مشتبہ جنگی مجرموں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔اب یہ تعداد سرکاری طور پر سولہ سو کے لگ بھگ ہے۔یہ بھی چند برس میں مر ہی جاتے جیسے باقی ساڑھے اڑتیس ہزار مر گئے۔اسرائیل نے برسوں بعد بھی جب ہاتھ ڈالا اصلی نازیوں پر ڈالا ان کے مقامی چیلوں چانٹوں پر وقت ضایع نہیں کیا۔ویسے بھی جب کمہار پہ بس نا چلے تو گدھے کے کان اینٹنھنے سے کیا حاصل۔
پھر بھی مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہے کہ ملا عبدالقادر کو پھانسی اتنی عجلت میں کیوں دے دی گئی۔پریشانی بس یہ ہے کہ جب سرکاری وار کرائمز ٹریبونل نے انھیں پانچ انسانیت سوز جرائم پر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور ایک جرم میں بری کردیا تھا تو پھر سپریم کورٹ نے چھٹا جرم بحال کرکے عمر قید کو سزائے موت میں کیسے بدل دیا۔اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کا فیصلہ ناقص تھا اور اسے سپریم کورٹ نے درست کردیا تو پھر ایسے ناکارہ وار کرائمز ٹریبونل کو توڑ کے نیا ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا اور اسی ناقص ٹریبونل نے جن باقی نو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ ان کے ناقص ہونے یا نا ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کب اور فیصلہ کرے گی۔
جب فروری میں ملا عبدالقادر کو وار کرائمز ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو ڈھاکہ کے شاہ بیگ چوک اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت سے کم کوئی سزا منظور نہیں۔اور پھر عوامی لیگ حکومت نے وار کرائم ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت عدالتی سزا سے مطمئن نہیں تو وہ متاثرین کی نمایندہ بن کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی۔اور پھر سپریم کورٹ نے ملا عبدالقادر کی عمرقید کو سزائے موت سے بدل دیا۔تو کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی انفرادی و اجتماعی دباؤ میں نہیں آئی۔
اور وار کرائمز ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم کو انیس سو اکہتر کے اخباری تراشوں کو بنیادی ثبوت مانتے ہوئے انسانئیت سوز مجرم کیسے قرار دے دیا اور اس نوے سالہ پروفیسر کو نوے سال قید کی سزا کیسے سنادی ؟ کیا یہ وہی غلام اعظم نہیں جن کی بنگلہ دیشی شہریت خود سپریم کورٹ نے انیس سو چورانوے میں بحال کی اور فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ وہ بطور آزاد شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔اور اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ناقص تھا تو پھر اس فیصلے کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں برسرِ اقتدار آنے والی حسینہ واجد حکومت نے اقتدار میں پورے پانچ برس گذارنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی اور جو وار کرائمز ٹریبونل حسینہ حکومت نے دو ہزار دس میں تشکیل دیا وہی ٹریبونل انیس سو چھیانوے تا دو ہزار ایک کے درمیان تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ تھی۔کیا ایسا تو نہیں کہ ان پانچ برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے سبب جنگی جرائم کے انصافی کھڑاگ میں پڑے بغیر اکیس برس کے وقفے سے ملنے والی حکومت کی مدت پوری کرنا چاہ رہی تھی اور جیسے ہی انھیں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت مل گئی تو انیس سو اکہتر کے نامکمل انصافی تقاضے پوری طرح سے یاد آگئے۔
لیکن وار کرائمز ٹریبونل بناتے وقت حسینہ واجد کو یہ کیوں یاد نہیں آیا کہ یہ وہی غدار جماعتِ اسلامی ہے جو 80 کے عشرے میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے شانہ بشانہ فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں شامل تھی۔اور یہ وہی جماعتِ اسلامی ہے جس کے ارکان ِ پارلیمان اسی ایوان میں انیس سو اناسی سے اب تک بیٹھتے رہے ہیں جس میں عوامی لیگ کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزبِ اختلاف کے طور پر موجود رہی ہے۔جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنرل ضیا الرحمان کی حکومت نے بنگلہ دیش واپسی کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے ہی جماعت پر سیاسی پابندی اٹھائی تھی۔ توہے کوئی عوامی لیگ میں جو جنرل ضیا الرحمان کو غدار کہہ سکے۔وہ میجرضیا الرحمان جس نے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان نشر کیا اور مال خانے کے ہتھیاروں سمیت سرحد پار جا کر آزادی پسندوں کو منظم کرتا رہا۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جس نے جو جرم کیا اس کو اس کی پوری سزا ملنی چاہیے۔اچھا آپ کے پاس تو جماعتِ اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سید کو سزائے موت سنانے کے لیے نسل کشی ، قتلِ عام ، ریپ اور ٹارچر کے ٹھوس ثبوت اور عینی شاہدوں کی کثیر تعداد تھی۔پھر بھی ان کی طرف سے پیش ہونے والے گواہ سکھ رنجن بالی کو عین عدالت کے دروازے سے پولیس کیوں اغوا کر کے لے گئی اور وہ ایک برس بعد بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جیل میں کیوں پایا گیا۔اور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کو یہ کیوں لکھنا پڑ گیا کہ دلاور سید کے مقدمے کے مرکزی جج کے استعفیٰ کے بعد دیگر ججوں نے صفائی کے تمام گواہوں کو سنے بغیر سزائے موت سنادی۔اچھا تو ابوالکلام آزاد عرف بچو رضاکار کو اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ کیوں نا مل سکا ؟ محمد قمر الزماں اسٹنٹ سیکریٹری جنرل جماعتِ اسلامی کو سال بھر بغیر فردِ جرم کے رکھا گیا اور پھر جنگی جرائم کی فردِ جرم سامنے آگئی۔علی احسن محمد مجاہد پر سات الزامات لگے، پانچ میں بری مگر دو کی بنیاد پر سزائے موت ؟؟
ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ایک اسپیکر فضل القادر چوہدری کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگی جرائم میں شراکت کی مد میں جیل میں ڈالا گیا۔انیس سو تہتر میں وہ بلا مقدمہ جیل میں ہی مرگئے۔اب ان کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری چار مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بعد جنگی مجرم قرار پائے۔تئیس الزامات میں سے نو کی بنیاد پر سزائے موت سنا دی گئی۔
دو ہزار دس میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل تشکیل پایا اس کے چیف جج محمد نظام الحق اور دو معاون جج اے ٹی ایم فضلِ کبیر اور اے کے ظہیر احمد تھے۔محمد نظام الحق مقدمات کی سماعت کے دوران برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیا الدین سے سکائپ اور ای میل پر مسلسل صلاح مشورے کرتے رہے۔دو سو تیس سے زائد ای میلز اور سترہ گھنٹے کی سکائپ ریکارڈنگ اخبار امر دیش کے ایڈیٹر محمود رحمان کے ہتھے چڑھ گئی۔انھوں نے اسے شایع کردیا۔حکومت نے اس جرم میں ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ایک ٹیپ میں چیف جج محمد نظام الحق کہہ رہے ہیں کہ عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہوگئی ہے۔وہ سولہ دسمبر کو یومِ آزادی سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔اس ریکارڈنگ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نظام الحق نے ٹریبونل سے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے نیا ٹریبونل تشکیل دینے کے بجائے فضلِ کبیر کو چیف جج بنا دیا۔حسینہ واجد نے کہا کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کارروائی جاری رہے گی۔
ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی ، امریکا ، یورپی یونین ، جرمنی ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور اقوامِ متحدہ نے دو ہزار دس میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین القوامی معیارات کے مطابق نہیں چلائے گئے۔
ہاں انیس سو اکہتر کے مشرقی پاکستان میں انسانیت کو ننگا نچوایا گیا تھا۔ہاں جسٹس حمود الرحمان کمیشن کے چھبیس ہزار سے مجیب حکومت کے تیس لاکھ کے درمیان کی کسی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ہاں پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان عورتیں ریپ ہوئیں۔ہاں البدر ، الشمس ، المجاہد اور رضاکار متحدہ پاکستان کی حمایت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بنے اور مکتی باہنی نے شونار بنگلہ کے حصول کے لیے غیر بنگالیوں کو جہاں موقع ملا گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ہاں خانہ جنگیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آیندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔چند لوگ ایک دوسرے کے ولن ہوں گے لیکن اجتماعی بھگتان نسلوں اور پورے پورے نسلی و مذہبی گروہوں کو سہنا پڑے گا۔اس کے باوجود کہیں تو لکیر کھینچنی ہی پڑتی ہے کہ بس جو ہو گیا سو ہوگیا۔ جو آزادی مل گئی اس کے صدقے خونی ماضی کو یادوں کی کوٹھڑی میں کسک کی کیل سے ٹانگ دو اور آگے کا سوچو۔جو نادم ہو اسے معاف کردو جو نادم نا ہو اسے معاف کر کے نادم کردو۔
کیا مکہ میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہی نہیں ہوا تھا ؟ کیا ڈیڑھ ہزار برس بعد الجزائریوں نے نوآبادیاتی فرانسیسیوں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا جنوبی افریقہ کے کالوں نے سفاک گوروں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا سابق یوگوسلاویہ میں ہزاروں سربوں ، کروٹوں اور مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد یہی نہیں ہوا۔کیا یہ بات سمجھنا اور سمجھانا راکٹ سائنس ہے کہ منتقم غصہ دوسرے سے زیادہ خود کو اندر سے سنگسار کرتا رہتا ہے۔ کچھ کو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے جیسے نیلسن منڈیلا وغیرہ۔ کچھ کو بیالیس برس میں بھی سمجھ میں نہیں آتی جیسے حسینہ واجد وغیرہ۔
پھر بھی اگر آپ ماضی کا کھاتہ معافی کے بجائے انصاف سے صاف کرکے دل کو تسکین دینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔مگر انصاف کا کھیل ذرا ٹیکنیکل ہے۔اس راہ میں پھونک پھونک کے رکھے جانے والے ننانوے قدموں کے بعد ایک سوواں قدم بھی ٹھیک ٹھیک ہی پڑنا چاہیے ورنہ انصاف کی ساری مسافت بے کار ، پلید اور ملیامیٹ ہونے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
کتنا اچھا لگا تھا جب شیخ مجیب الرحمان بطور وزیرِ اعظم فروری انیس سو چوہتر کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔معافی تو تب بھی پاکستان نے نہیں مانگی تھی۔جماعتِ اسلامی تو تب بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے چلانے کے لیے بنگلہ دیش نامنظور کا پورا زور لگا رہی تھی۔ایک سو پچانوے پاکستانی فوجی افسر تو تب بھی بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی فہرست میں تھے۔لیکن جب ان پر اس لیے مقدمہ نہیں چل پایا کہ دو لاکھ بنگالی شہری مغربی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان ایک سو پچانوے کے مقامی ہوتوں سوتوں پر چالیس برس بعد مقدمہ چلانے کا جواز عجیب سا لگتا ہے۔
سن تہتر میں جب جنگی جرائم کا پہلا ٹریبونل بنا تو بنگلہ دیش میں مشتبہ جنگی مجرموں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔اب یہ تعداد سرکاری طور پر سولہ سو کے لگ بھگ ہے۔یہ بھی چند برس میں مر ہی جاتے جیسے باقی ساڑھے اڑتیس ہزار مر گئے۔اسرائیل نے برسوں بعد بھی جب ہاتھ ڈالا اصلی نازیوں پر ڈالا ان کے مقامی چیلوں چانٹوں پر وقت ضایع نہیں کیا۔ویسے بھی جب کمہار پہ بس نا چلے تو گدھے کے کان اینٹنھنے سے کیا حاصل۔
پھر بھی مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہے کہ ملا عبدالقادر کو پھانسی اتنی عجلت میں کیوں دے دی گئی۔پریشانی بس یہ ہے کہ جب سرکاری وار کرائمز ٹریبونل نے انھیں پانچ انسانیت سوز جرائم پر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور ایک جرم میں بری کردیا تھا تو پھر سپریم کورٹ نے چھٹا جرم بحال کرکے عمر قید کو سزائے موت میں کیسے بدل دیا۔اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کا فیصلہ ناقص تھا اور اسے سپریم کورٹ نے درست کردیا تو پھر ایسے ناکارہ وار کرائمز ٹریبونل کو توڑ کے نیا ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا اور اسی ناقص ٹریبونل نے جن باقی نو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ ان کے ناقص ہونے یا نا ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کب اور فیصلہ کرے گی۔
جب فروری میں ملا عبدالقادر کو وار کرائمز ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو ڈھاکہ کے شاہ بیگ چوک اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت سے کم کوئی سزا منظور نہیں۔اور پھر عوامی لیگ حکومت نے وار کرائم ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت عدالتی سزا سے مطمئن نہیں تو وہ متاثرین کی نمایندہ بن کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی۔اور پھر سپریم کورٹ نے ملا عبدالقادر کی عمرقید کو سزائے موت سے بدل دیا۔تو کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی انفرادی و اجتماعی دباؤ میں نہیں آئی۔
اور وار کرائمز ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم کو انیس سو اکہتر کے اخباری تراشوں کو بنیادی ثبوت مانتے ہوئے انسانئیت سوز مجرم کیسے قرار دے دیا اور اس نوے سالہ پروفیسر کو نوے سال قید کی سزا کیسے سنادی ؟ کیا یہ وہی غلام اعظم نہیں جن کی بنگلہ دیشی شہریت خود سپریم کورٹ نے انیس سو چورانوے میں بحال کی اور فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ وہ بطور آزاد شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔اور اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ناقص تھا تو پھر اس فیصلے کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں برسرِ اقتدار آنے والی حسینہ واجد حکومت نے اقتدار میں پورے پانچ برس گذارنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی اور جو وار کرائمز ٹریبونل حسینہ حکومت نے دو ہزار دس میں تشکیل دیا وہی ٹریبونل انیس سو چھیانوے تا دو ہزار ایک کے درمیان تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ تھی۔کیا ایسا تو نہیں کہ ان پانچ برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے سبب جنگی جرائم کے انصافی کھڑاگ میں پڑے بغیر اکیس برس کے وقفے سے ملنے والی حکومت کی مدت پوری کرنا چاہ رہی تھی اور جیسے ہی انھیں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت مل گئی تو انیس سو اکہتر کے نامکمل انصافی تقاضے پوری طرح سے یاد آگئے۔
لیکن وار کرائمز ٹریبونل بناتے وقت حسینہ واجد کو یہ کیوں یاد نہیں آیا کہ یہ وہی غدار جماعتِ اسلامی ہے جو 80 کے عشرے میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے شانہ بشانہ فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں شامل تھی۔اور یہ وہی جماعتِ اسلامی ہے جس کے ارکان ِ پارلیمان اسی ایوان میں انیس سو اناسی سے اب تک بیٹھتے رہے ہیں جس میں عوامی لیگ کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزبِ اختلاف کے طور پر موجود رہی ہے۔جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنرل ضیا الرحمان کی حکومت نے بنگلہ دیش واپسی کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے ہی جماعت پر سیاسی پابندی اٹھائی تھی۔ توہے کوئی عوامی لیگ میں جو جنرل ضیا الرحمان کو غدار کہہ سکے۔وہ میجرضیا الرحمان جس نے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان نشر کیا اور مال خانے کے ہتھیاروں سمیت سرحد پار جا کر آزادی پسندوں کو منظم کرتا رہا۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جس نے جو جرم کیا اس کو اس کی پوری سزا ملنی چاہیے۔اچھا آپ کے پاس تو جماعتِ اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سید کو سزائے موت سنانے کے لیے نسل کشی ، قتلِ عام ، ریپ اور ٹارچر کے ٹھوس ثبوت اور عینی شاہدوں کی کثیر تعداد تھی۔پھر بھی ان کی طرف سے پیش ہونے والے گواہ سکھ رنجن بالی کو عین عدالت کے دروازے سے پولیس کیوں اغوا کر کے لے گئی اور وہ ایک برس بعد بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جیل میں کیوں پایا گیا۔اور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کو یہ کیوں لکھنا پڑ گیا کہ دلاور سید کے مقدمے کے مرکزی جج کے استعفیٰ کے بعد دیگر ججوں نے صفائی کے تمام گواہوں کو سنے بغیر سزائے موت سنادی۔اچھا تو ابوالکلام آزاد عرف بچو رضاکار کو اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ کیوں نا مل سکا ؟ محمد قمر الزماں اسٹنٹ سیکریٹری جنرل جماعتِ اسلامی کو سال بھر بغیر فردِ جرم کے رکھا گیا اور پھر جنگی جرائم کی فردِ جرم سامنے آگئی۔علی احسن محمد مجاہد پر سات الزامات لگے، پانچ میں بری مگر دو کی بنیاد پر سزائے موت ؟؟
ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ایک اسپیکر فضل القادر چوہدری کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگی جرائم میں شراکت کی مد میں جیل میں ڈالا گیا۔انیس سو تہتر میں وہ بلا مقدمہ جیل میں ہی مرگئے۔اب ان کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری چار مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بعد جنگی مجرم قرار پائے۔تئیس الزامات میں سے نو کی بنیاد پر سزائے موت سنا دی گئی۔
دو ہزار دس میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل تشکیل پایا اس کے چیف جج محمد نظام الحق اور دو معاون جج اے ٹی ایم فضلِ کبیر اور اے کے ظہیر احمد تھے۔محمد نظام الحق مقدمات کی سماعت کے دوران برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیا الدین سے سکائپ اور ای میل پر مسلسل صلاح مشورے کرتے رہے۔دو سو تیس سے زائد ای میلز اور سترہ گھنٹے کی سکائپ ریکارڈنگ اخبار امر دیش کے ایڈیٹر محمود رحمان کے ہتھے چڑھ گئی۔انھوں نے اسے شایع کردیا۔حکومت نے اس جرم میں ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ایک ٹیپ میں چیف جج محمد نظام الحق کہہ رہے ہیں کہ عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہوگئی ہے۔وہ سولہ دسمبر کو یومِ آزادی سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔اس ریکارڈنگ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نظام الحق نے ٹریبونل سے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے نیا ٹریبونل تشکیل دینے کے بجائے فضلِ کبیر کو چیف جج بنا دیا۔حسینہ واجد نے کہا کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کارروائی جاری رہے گی۔
ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی ، امریکا ، یورپی یونین ، جرمنی ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور اقوامِ متحدہ نے دو ہزار دس میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین القوامی معیارات کے مطابق نہیں چلائے گئے۔
Remembering Dhaka - By Tariq Mehmud
The month of December takes me back to the lanes and labyrinths of
the city of Dhaka, where I spent some early years of my life. Memories
of chattering with the rickshaw-pullers at the entrance of my hostel
early in the morning and heckling with the fruit vendors around sunset
at the crowded Saddar Ghaat on the edges of Boorrhi Ganga still haunt
me, despite the tides of time having overtaken so much of life.
I landed in Dhaka after the 1965 war as an undergraduate student. For the next few turbulent years up till 1970, Salimullah Muslim Hall close to the well known Plassey Barracks was my abode. This hostel, known for its architectural elegance, was built in the earlier part of the century and named after Nawab Sir Saleemullah, who hosted the historic Muslim League delegation in 1906. The 1965 war with India had equally charged our Bengali compatriots, who demonstrated exemplary spirit but that soon tapered off. People felt left out and defenceless, though the Indian forces did not launch a full-scale attack on the eastern front. In a quick succession of events, Sheikh Mujibur Rehman launched his historic six points underlining complete regional autonomy for East Pakistan. In a year or two, he was charged under the Agartala conspiracy case, which created a further wedge between the two wings.
During all these years, Dhaka University pulsated with a flurry of activities. As a West Pakistani student, I could hang out with the young disciples of Maulana Maududi and Maulana Bhashani at the same time. My quest to understand different cross currents quite often swung me across the spectrum.
The Bengali intelligentsia, since the 1950s, was clear in its mind that Pakistan was one polity, but with two separate economies, distinct dispensations were needed for them to survive and forge ahead. While immersed in the Bengali ethos, I realised that despite some convergences in our everyday lives, we were far apart both culturally and linguistically. The way we lived, our eating habits, our sources of joy and sorrow were different. Our sense of history and vision for the future also set us apart. There had been no meaningful effort to take these factors into account. As a country, we needed exceptional dispensation while harmonising deep-seated diversity with occasional flashes of unity. This dilemma did exist in many other parts of the world too and led to many other countries evolving a national construct where conflicting claims could be safely managed.
Pakistan, as a new Islamic Republic, inherited a centrist mode of governance despite a compact amongst the constituent units, which were pluralistic and stood out for diversity. Geographical incongruity, because of the huge Indian land mass, with an avowed adverse posture against Pakistan, was a ground reality. This should have been persuasive enough for the decision-making elite to work out a system, which could have enabled the constituents of Pakistan’s federation to flourish along their distinct courses. Soon after independence, many other identities surfaced which were not acceptable to the centric leadership dominated by the Punjabi and Urdu-speaking elite of that time.
In a pluralistic society, language happens to be the most potent marker of group identity, which if duly recognised, gives access to opportunities and a space to blossom. The demand to accept Bengali as an official language was not only rubbished by the West Pakistani leadership, questions were also raised on the floor of the house of the Constituent Assembly regarding the patriotism of those pressing for this demand.
My stay in the hostel with Bengali students had been enriching. I dined and dressed like them, and spoke Bengali with ease and facility, which gave me a better understanding of the Bengali mind. As I reflect back, I feel that Bengal had never been a part of the mainstream subcontinent or the Indian land mass. Its rich, alluvial and deltaic character always marked this area with a sense of exclusiveness. Had there been no colonial sharing under the British, it may well have been yet another Muslim country on the fringes of Southeast Asia. This distinctiveness also ran through its political streams. The Pakistan movement did push this exclusivism into the background for a while but an average literate Muslim Bengali in that part was clear in his mind that his religion separated him from Hindu Bengalis, hence the quest for Pakistan, while his language and culture distinguished him from fellow West Pakistanis, all the more reason for complete regional autonomy.
The economic paradigm that we had been following largely focused on investment, capacity-building and incurring of huge expenditures in the western wing. The investment multiplier, which remained confined to the western wing, deepened the wedge between the two wings further. Empirical evidence of the growing economic disparity between the two parts can be found from the study of the five-year plans of the 1950s and 1960s.
What happened in 1971, among other reasons, was on account of the festering economic inequity, aggravated by cultural and linguistic cleavages, and lack of participation in key decision-making by Bengalis. Development economists, like Andre Gunder Frank and Samir Amin, had done a lot of work on uneven development and cultural cleavages by that time, but only a sensible leadership could have picked up these cues to avert disaster.
The creation of Pakistan, while riding on a religious crest wave, was indeed a defiance of geography; dismemberment of the country, on the other hand, was the revenge of this very geography for missing out on the building blocks so vitally needed in the process of nation-building.
On my last visit to Bangladesh a few years ago, I drove through the familiar roads of Dhaka along with an old Bengali friend, who had been a freedom fighter in the 1971 war. We drove to Shaheed Minar and sauntered there for a while. The place was buzzing with the presence of young university students. My host pointed towards the nearby classrooms. I was told that it was here in February 1952 that peaceful protestors of the language movement were fired upon on the orders of a maverick police officer from West Pakistan. The name of the officer was Masud Mahmood. He was the same maverick, who at one time was the eyes and ears of the late Zulfikar Ali Bhutto and then turned as an approver in the murder case against the former prime minister, resulting in his execution. Apart from monumental blunders, petty but violent acts like these at an individual level were also responsible for the agony and misery this country went through.
Published in The Express Tribune, December 16th, 2013.
I landed in Dhaka after the 1965 war as an undergraduate student. For the next few turbulent years up till 1970, Salimullah Muslim Hall close to the well known Plassey Barracks was my abode. This hostel, known for its architectural elegance, was built in the earlier part of the century and named after Nawab Sir Saleemullah, who hosted the historic Muslim League delegation in 1906. The 1965 war with India had equally charged our Bengali compatriots, who demonstrated exemplary spirit but that soon tapered off. People felt left out and defenceless, though the Indian forces did not launch a full-scale attack on the eastern front. In a quick succession of events, Sheikh Mujibur Rehman launched his historic six points underlining complete regional autonomy for East Pakistan. In a year or two, he was charged under the Agartala conspiracy case, which created a further wedge between the two wings.
During all these years, Dhaka University pulsated with a flurry of activities. As a West Pakistani student, I could hang out with the young disciples of Maulana Maududi and Maulana Bhashani at the same time. My quest to understand different cross currents quite often swung me across the spectrum.
The Bengali intelligentsia, since the 1950s, was clear in its mind that Pakistan was one polity, but with two separate economies, distinct dispensations were needed for them to survive and forge ahead. While immersed in the Bengali ethos, I realised that despite some convergences in our everyday lives, we were far apart both culturally and linguistically. The way we lived, our eating habits, our sources of joy and sorrow were different. Our sense of history and vision for the future also set us apart. There had been no meaningful effort to take these factors into account. As a country, we needed exceptional dispensation while harmonising deep-seated diversity with occasional flashes of unity. This dilemma did exist in many other parts of the world too and led to many other countries evolving a national construct where conflicting claims could be safely managed.
Pakistan, as a new Islamic Republic, inherited a centrist mode of governance despite a compact amongst the constituent units, which were pluralistic and stood out for diversity. Geographical incongruity, because of the huge Indian land mass, with an avowed adverse posture against Pakistan, was a ground reality. This should have been persuasive enough for the decision-making elite to work out a system, which could have enabled the constituents of Pakistan’s federation to flourish along their distinct courses. Soon after independence, many other identities surfaced which were not acceptable to the centric leadership dominated by the Punjabi and Urdu-speaking elite of that time.
In a pluralistic society, language happens to be the most potent marker of group identity, which if duly recognised, gives access to opportunities and a space to blossom. The demand to accept Bengali as an official language was not only rubbished by the West Pakistani leadership, questions were also raised on the floor of the house of the Constituent Assembly regarding the patriotism of those pressing for this demand.
My stay in the hostel with Bengali students had been enriching. I dined and dressed like them, and spoke Bengali with ease and facility, which gave me a better understanding of the Bengali mind. As I reflect back, I feel that Bengal had never been a part of the mainstream subcontinent or the Indian land mass. Its rich, alluvial and deltaic character always marked this area with a sense of exclusiveness. Had there been no colonial sharing under the British, it may well have been yet another Muslim country on the fringes of Southeast Asia. This distinctiveness also ran through its political streams. The Pakistan movement did push this exclusivism into the background for a while but an average literate Muslim Bengali in that part was clear in his mind that his religion separated him from Hindu Bengalis, hence the quest for Pakistan, while his language and culture distinguished him from fellow West Pakistanis, all the more reason for complete regional autonomy.
The economic paradigm that we had been following largely focused on investment, capacity-building and incurring of huge expenditures in the western wing. The investment multiplier, which remained confined to the western wing, deepened the wedge between the two wings further. Empirical evidence of the growing economic disparity between the two parts can be found from the study of the five-year plans of the 1950s and 1960s.
What happened in 1971, among other reasons, was on account of the festering economic inequity, aggravated by cultural and linguistic cleavages, and lack of participation in key decision-making by Bengalis. Development economists, like Andre Gunder Frank and Samir Amin, had done a lot of work on uneven development and cultural cleavages by that time, but only a sensible leadership could have picked up these cues to avert disaster.
The creation of Pakistan, while riding on a religious crest wave, was indeed a defiance of geography; dismemberment of the country, on the other hand, was the revenge of this very geography for missing out on the building blocks so vitally needed in the process of nation-building.
On my last visit to Bangladesh a few years ago, I drove through the familiar roads of Dhaka along with an old Bengali friend, who had been a freedom fighter in the 1971 war. We drove to Shaheed Minar and sauntered there for a while. The place was buzzing with the presence of young university students. My host pointed towards the nearby classrooms. I was told that it was here in February 1952 that peaceful protestors of the language movement were fired upon on the orders of a maverick police officer from West Pakistan. The name of the officer was Masud Mahmood. He was the same maverick, who at one time was the eyes and ears of the late Zulfikar Ali Bhutto and then turned as an approver in the murder case against the former prime minister, resulting in his execution. Apart from monumental blunders, petty but violent acts like these at an individual level were also responsible for the agony and misery this country went through.
Published in The Express Tribune, December 16th, 2013.
Sunday, December 15, 2013
Friday, December 13, 2013
Subscribe to:
Posts (Atom)