Creating more and more enemies...
آپ کو 26 نومبر 2008ء کی وہ شام یاد ہو گی جب بھارتی شہر ممبئی کے آٹھ مقامات پر حملے شروع ہوئے‘ یہ حملے دس نوجوانوں نے کیے اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا‘ حملوں میں بھارت کے 166 افراد ہلاک اور تین سو زخمی ہو گئے‘ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا‘ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی تھی‘ بھارتی میڈیا منہ سے نفرت کے شعلے اگلنے لگا اور یوں پاکستانی میڈیا سامنے آنے پر مجبور ہو گیا‘ ممبئی پولیس نے حملوں کے آخری دن دعویٰ کیا ’’ ہم نے پاکستانی حملہ آور اجمل قصاب گرفتار کر لیا ہے‘‘ اس دعوے کے ساتھ ہی وہ کہانی شروع ہو گئی جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان نفرتوں اور غلط فہمیوں کے نئے بیج بو دیے‘ ممبئی پولیس نے اجمل قصاب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف 12 ایف آئی آر درج کیں‘ 12 افسروں کو تفتیش کی ذمے داری سونپی گئی‘ اجمل قصاب نے واقعے کے 2 ماہ 21 دن بعد مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کیا‘ 15 اپریل2009ء کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور اجمل قصاب عدالت میں پہنچ کر اعترافی بیان سے منحرف ہو گیا‘ اس نے دعویٰ کیا ’’میں بالی ووڈ میں ایکٹر بننے کے لیے بھارت آیا تھا‘ پولیس نے مجھے اس واقعے سے بیس دن قبل جو ہو کے علاقے سے گرفتار کیا‘ یہ واقعہ ہوا تو پولیس نے مجھ پر تشدد کر کے یہ اعترافی بیان لے لیا‘‘.
پولیس نے فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین دو بھارتی شہریوں کو اجمل قصاب کا ساتھی ڈکلیئر کر کے عدالت میں پیش کیا‘ فہیم پر الزام تھا اس نے ہاتھ سے ممبئی کے نقشے بنائے اور یہ نقشے صباح الدین نے نیپال کے ذریعے اجمل قصاب کے استاد ذکی الرحمن لکھوی کو بھجوائے‘ پولیس عدالت میں ان دونوں کو مجرم ثابت نہ کر سکی چنانچہ یہ دونوں باعزت بری ہو گئے‘ اجمل قصاب کا مقدمہ 332 دن چلا‘ چارج شیٹ 14280 صفحات پر مشتمل تھی‘ گواہوں کی فہرست میں 2202 لوگ شامل تھے‘ 657 گواہوں کو عدالت میں پیش کیا گیا‘ عدالت نے 110 سماعتیں کیں‘ اجمل قصاب کو ذاتی وکیل کی اجازت نہیں ملی‘ اسے سرکاری وکیل سے بھی ملاقات نہیں کرنے دی گئی ‘ گواہوں پر جرح بھی نہیں ہوئی ‘ اجمل قصاب نے فیصلے کے خلاف اپیلیں کیں مگر تمام اپیلیں خارج ہو گئیں اور یوں اسے 21 نومبر 2012ء کی صبح سات بجے پونا جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ اسے جیل ہی میں دفن کر دیا گیا۔
اجمل قصاب دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن اپنے پیچھے سوالات کی نہ ختم ہونے والی لکیریں چھوڑ گیا مثلاً دنیا کی کوئی عدالت 110 سماعتوں میں 657 گواہوں کی گواہیاں ریکارڈ نہیں کر سکتی‘ اجمل قصاب کے معاملے میں یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ بھارت کے عدالتی نظام نے 1993ء کے ممبئی حملوں کا فیصلہ 2007ء میں کیا لیکن اجمل قصاب کا فیصلہ 332 دنوں میں کر دیا گیا‘ یہ بھارتی تاریخ کا دوسرا تیز ترین فیصلہ تھا‘ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اجمل قصاب کا اعترافی بیان بھی تضادات کا مجموعہ تھا‘ یہ دو جماعت پاس لیکن اس کا بیان انتہائی پڑھے لکھے نوجوان جیسا تھا‘ پاکستان کے کسی بھی حصے میں قصابوں کو قصاب نہیں کہا جاتا‘ یہ قریشی کہلاتے ہیں یا قصائی‘ اجمل پھر قصاب کیسے ہوگیا؟
اجمل قصاب نے اعترافی بیان میں اپنے پورے خاندان چچاؤں‘ تایا اور پھوپھیوں کے ایڈریس‘ نمبر اور ان کے بچوں کی تفصیل لکھوائی‘ اس نے ان کے ٹیلی فون نمبر تک لکھوا دیے‘ یہ کسی ان پڑھ نوجوان کے بس کی بات نہیں‘ پاکستانی خالہ کو موسی نہیں کہتے لیکن اجمل نے خالہ کو موسی لکھوایا‘ لاہور کا کوئی شخص داتا دربار کو علی ہجویری درگاہ نہیں کہتا مگر اجمل نے اسے علی ہجویری درگاہ لکھوایا‘ اجمل کے بیان میں ’’لاہور کا مزدوروں کا اڈہ‘‘ درج ہے‘ لاہور میں ایسا کوئی مقام نہیں‘ وہ ٹریننگ کے دوران بار بار حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ملاقات کا ذکر کرتا ہے‘ یہ بھی بعید از قیاس ہے‘ دنیا کا کوئی لیڈر کسی ادنیٰ کارکن سے اس طرح نہیں ملتا‘ یہ اعترافی بیان میں مریدکے اور مانسہرہ کے سفر کو بارہ گھنٹے قرار دیتا ہے‘ یہ لاہور سے مظفر آباد کے سفر کو 17 گھنٹے کہتا ہے‘ یہ بھی غلط ہے‘ ہم سب پاکستانی کشمیر کو آزاد کشمیر کہتے ہیں لیکن اجمل قصاب اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر لکھواتا ہے‘ دو جماعت پاس نوجوان سیٹلائٹ فون‘ جی پی ایس اور نقشے سمجھنے کا بھی ایکسپرٹ ہے‘ ہم ٹورسٹس کو سیاح کہتے ہیں مگر اجمل نے اسے درویشی سیلانی لکھوایا‘ پاکستان کیا پورے عالم اسلام میں رمضان عید نہیں ہوتی‘ مسلمان عیدالفطر کو چھوٹی عید اور عیدالاضحی کو بڑی عید کہتے ہیں لیکن اجمل نے چھوٹی عید کو رمضان عید قرار دیا اور ہم پاکستان میں میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل دونوں کو صرف جنرل کہتے ہیں مگر اجمل اپنے بیان میں میجر جنرل کو میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل لکھواتا ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟
یہ سارے سوال جواب چاہتے ہیں مگر بھارت کے کسی سمجھ دار اور غیرجانبدار شخص نے یہ جواب تلاش نہیں کیے‘ آپ انھیں بھی چھوڑ دیجیے‘ بھارت اس ڈیوڈ ہیڈلے کو کہاں رکھے گا جس نے 18 مارچ 2010 ء کوشکاگو کی عدالت میں اعتراف کیا تھا ’’ ممبئی حملوں میں میرا ہاتھ تھا‘‘ ڈیوڈ ہیڈلے ایف بی آئی اور سی آئی اے کا ڈبل ایجنٹ تھا اور بھارت اپنے سینئر بیورو کریٹ وی آر وی ایس منی اور سی بی آئی کے سینئر عہدیدار استیش ورما کے ان حلفی بیانات کا کیا جواب دے گا جس میں ان لوگوں نے انکشاف کیا ’’ 2001ء کے پارلیمنٹ اور 2008ء کے ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے تھے‘‘ بھارت ان سوالوں کے جواب کب اور کہاں دے گا؟۔
یہ اجمل قصاب کے مقدمے کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ اجمل قصاب نے بھارت میں17 فروری 2009ء کو اعترافی بیان دیا لیکن پاکستان نے اس اعترافی بیان سے پانچ دن قبل12 فروری کو حافظ سعید‘ ذکی الرحمن لکھوی‘ حماد امین صادق‘ مظہر اقبال‘ شاہد جمیل ریاض‘ عبدالواجد،محمد جمیل اور یونس انجم کے خلاف مقدمہ درج کر دیا‘ یہ لوگ گرفتار بھی ہو گئے‘ یہ مقدمہ پچھلے پانچ برسوں سے زیر التواء ہے اور اس کی واحد وجہ بھارتی رویہ ہے‘ یہ جرم کیونکہ بھارتی سرزمین پر ہوا تھا چنانچہ ثبوت پیش کرنے کی ذمے داری بھی بھارت کی تھی‘ عینی شاہدین اور گواہ بھی بھارت میں تھے ‘ پاکستان کی عدالتوں اور وکلاء کو گواہوں اور ثبوتوں تک رسائی بھی بھارت نے دینی تھی مگر بھارت نے پانچ برسوں میں یہ رسائی‘ یہ ثبوت نہیں دیے‘ پاکستانی وکلاء حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی پر الزام لگانے والے فہیم ارشد انصاری اور اجمل قصاب سے ملنا چاہتے تھے‘ بھارت نے اجازت نہیں دی‘ پاکستان نے بھارتی مجسٹریٹ اور تفتیشی افسر کو پاکستانی عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی‘ بھارت نے انکار کر دیا‘ پاکستانی عدالت نے استغاثہ اور صفائی کے وکلاء کو گواہوں کے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بھارت بھجوانے کا حکم دیا مگر بھارت سے اجازت نہ ملی‘ بھارت نے اصرار کے بعد 2012ء میں پاکستانی عدالتی کمیشن کو صرف چار گواہیاں ریکارڈ کرنے کی اجازت دی لیکن جب ان سے گواہوں پر جرح کا حق مانگا گیا تو بھارتی عدالت نے صاف انکار کر دیا‘ یوں ڈیڈ لاک ہو گیا‘ سفارتی کوششیں شروع ہوئیں تو پاکستانی وکلاء کو جرح کا حق دے دیا گیا مگر عدالتی کمیشن کے بھارت پہنچنے سے پہلے اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی یوں جرح کا سرے سے امکان ختم ہو گیا‘۔
اجمل قصاب کو کسی آزاد شخص‘ ادارے یا این جی او سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی‘ بھارت نے انصار برنی تک کو ملاقات کا موقع نہیں دیا‘ حافظ سعید اور لکھوی صاحب پر فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین نے الزام لگایا تھا‘ یہ دونوں بری ہو چکے ہیں لیکن الزام ابھی تک قائم ہے‘ مقدمے کے دوران دعویٰ کیا گیا‘ حملہ آوروں کے حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ٹیلی فونک رابطے تھے مگر تمام فرانزک رپورٹس نے اس الزام کو رد کر دیا‘ رپورٹس کے مطابق حملہ آور امریکی اور بھارتی نمبروں پر رابطے میں تھے‘ کسی فون کے ذریعے کسی پاکستانی نمبر پر رابطہ نہیں ہوا‘ ملزمان کو ای میل بھی ماسکو سے بھجوائی گئی تھی‘ بھارت آج تک حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘ پاکستانی عدالتی کمیشن اور تفتیشی افسروں تک کو بھارت جانے اور تفتیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ پاکستان کو مطلوب معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود بھارت کی طرف سے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سزا کا مطالبہ جاری ہے‘ بھارت اس معاملے میں اس قدر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ میاں نواز شریف 23 اکتوبر 2013ء کو صدر اوبامہ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس گئے تو صدر اوبامہ نے ڈرون حملوں پر بات چیت کے بجائے جماعت الدعوۃ کا کیس کھول لیا اور ممبئی اٹیکس پر گفتگو شروع کر دی‘ ہمارے وزیراعظم امریکی صدر کے دباؤ میں آ گئے اور انھوں نے باہر نکل کر پاکستانی میڈیا سے فرما دیا ’’ ہمیں بھی اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کرنا چاہیے‘‘ ہمارے وزیراعظم کو کسی نے اصل صورتحال بتائی ہی نہیں تھی چنانچہ جب امریکی صدر نے میاں نواز شریف کے سامنے جماعت الدعوۃ کا ایشو اٹھایا تو یہ پریشر میں آ گئے۔
حافظ سعید پاکستانیوں کے لیے محترم ہیں‘ یہ کشمیری ہیں‘ یہ کشمیر کی تحریک میں انتہائی فعال رہے‘حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے بے انتہا قربانیاں دیں‘ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کی بقا کے لیے میاں نواز شریف سے لے کرعام شہری تک ہر شخص ‘ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے اور یہ قربانی اگر جرم ہے تو پھر ہم سب مجرم بھی ہیں اور ہمیں اپنے اس جرم پر فخر بھی ہے‘ میاں نواز شریف اور حافظ سعید دونوں کا کاز ایک ہے‘ میاں نواز شریف نے کل آزاد کشمیر کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جن خیالات کا اظہار کیا‘ حافظ سعید اور ان کے ساتھی برسوں سے ان خیالات پر عمل کر رہے ہیں‘ حافظ سعید صاحب اور ان کی جماعت پاکستان کی چند بڑی فلاحی تنظیموں میں بھی شمار ہوتی ہے‘ یہ زلزلوں سے لے کر سیلابوں تک ملک کی ہر مشکل میں دامے،درمے اور سخنے شریک ہوتی ہے‘ آپ آواران کے زلزلے کو لے لیجئے 24 ستمبر 2013ء کو سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں شدید زلزلہ آیا‘ اس زلزلے میں بلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور آواران متاثر ہوئے‘ ریاستی ادارے آواران نہیں پہنچ سکے لیکن حافظ سعید کے ساتھی وہاں پہنچے بھی اور انھوں نے وہاں متاثرین کی مدد بھی کی لیکن ہم نے ان کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف کے بجائے ان پر مقدمے قائم کر رکھے ہیں‘۔
آج بھی ذکی الرحمن لکھوی صاحب سمیت چھ لوگ جیلوں میں پڑے ہیں‘ یہ لوگ اس بھارت کے ناحق دباؤ کی وجہ سے جیلوں میں ہیں جسے ہم آج بھی دشمن سمجھتے ہیں‘ جسے ہم بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور جسے ہم خودکش حملوں کا ماسٹرمائنڈ بھی کہتے ہیں۔چلیے ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں‘ یہ تمام الزام درست ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے ان الزامات کو ثابت کس نے کرنا ہے؟ کیا یہ بھارت کی ذمے داری نہیں؟ اگر ہاں تو کیا یہ اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم حافظ سعید صاحب اور ان کے ساتھیوں کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟ ہم آخر کب تک محب وطن لوگوں کو اپنا دشمن بناتے رہیں گے؟ ہم کب تک ریاست کے دوستوں کا دل توڑتے رہیں گے؟ کیا ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے بھی کوئی مذاکراتی کمیٹی بنانا پڑے گی؟
آپ کو 26 نومبر 2008ء کی وہ شام یاد ہو گی جب بھارتی شہر ممبئی کے آٹھ مقامات پر حملے شروع ہوئے‘ یہ حملے دس نوجوانوں نے کیے اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا‘ حملوں میں بھارت کے 166 افراد ہلاک اور تین سو زخمی ہو گئے‘ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا‘ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی تھی‘ بھارتی میڈیا منہ سے نفرت کے شعلے اگلنے لگا اور یوں پاکستانی میڈیا سامنے آنے پر مجبور ہو گیا‘ ممبئی پولیس نے حملوں کے آخری دن دعویٰ کیا ’’ ہم نے پاکستانی حملہ آور اجمل قصاب گرفتار کر لیا ہے‘‘ اس دعوے کے ساتھ ہی وہ کہانی شروع ہو گئی جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان نفرتوں اور غلط فہمیوں کے نئے بیج بو دیے‘ ممبئی پولیس نے اجمل قصاب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف 12 ایف آئی آر درج کیں‘ 12 افسروں کو تفتیش کی ذمے داری سونپی گئی‘ اجمل قصاب نے واقعے کے 2 ماہ 21 دن بعد مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کیا‘ 15 اپریل2009ء کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور اجمل قصاب عدالت میں پہنچ کر اعترافی بیان سے منحرف ہو گیا‘ اس نے دعویٰ کیا ’’میں بالی ووڈ میں ایکٹر بننے کے لیے بھارت آیا تھا‘ پولیس نے مجھے اس واقعے سے بیس دن قبل جو ہو کے علاقے سے گرفتار کیا‘ یہ واقعہ ہوا تو پولیس نے مجھ پر تشدد کر کے یہ اعترافی بیان لے لیا‘‘.
پولیس نے فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین دو بھارتی شہریوں کو اجمل قصاب کا ساتھی ڈکلیئر کر کے عدالت میں پیش کیا‘ فہیم پر الزام تھا اس نے ہاتھ سے ممبئی کے نقشے بنائے اور یہ نقشے صباح الدین نے نیپال کے ذریعے اجمل قصاب کے استاد ذکی الرحمن لکھوی کو بھجوائے‘ پولیس عدالت میں ان دونوں کو مجرم ثابت نہ کر سکی چنانچہ یہ دونوں باعزت بری ہو گئے‘ اجمل قصاب کا مقدمہ 332 دن چلا‘ چارج شیٹ 14280 صفحات پر مشتمل تھی‘ گواہوں کی فہرست میں 2202 لوگ شامل تھے‘ 657 گواہوں کو عدالت میں پیش کیا گیا‘ عدالت نے 110 سماعتیں کیں‘ اجمل قصاب کو ذاتی وکیل کی اجازت نہیں ملی‘ اسے سرکاری وکیل سے بھی ملاقات نہیں کرنے دی گئی ‘ گواہوں پر جرح بھی نہیں ہوئی ‘ اجمل قصاب نے فیصلے کے خلاف اپیلیں کیں مگر تمام اپیلیں خارج ہو گئیں اور یوں اسے 21 نومبر 2012ء کی صبح سات بجے پونا جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ اسے جیل ہی میں دفن کر دیا گیا۔
اجمل قصاب دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن اپنے پیچھے سوالات کی نہ ختم ہونے والی لکیریں چھوڑ گیا مثلاً دنیا کی کوئی عدالت 110 سماعتوں میں 657 گواہوں کی گواہیاں ریکارڈ نہیں کر سکتی‘ اجمل قصاب کے معاملے میں یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ بھارت کے عدالتی نظام نے 1993ء کے ممبئی حملوں کا فیصلہ 2007ء میں کیا لیکن اجمل قصاب کا فیصلہ 332 دنوں میں کر دیا گیا‘ یہ بھارتی تاریخ کا دوسرا تیز ترین فیصلہ تھا‘ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اجمل قصاب کا اعترافی بیان بھی تضادات کا مجموعہ تھا‘ یہ دو جماعت پاس لیکن اس کا بیان انتہائی پڑھے لکھے نوجوان جیسا تھا‘ پاکستان کے کسی بھی حصے میں قصابوں کو قصاب نہیں کہا جاتا‘ یہ قریشی کہلاتے ہیں یا قصائی‘ اجمل پھر قصاب کیسے ہوگیا؟
اجمل قصاب نے اعترافی بیان میں اپنے پورے خاندان چچاؤں‘ تایا اور پھوپھیوں کے ایڈریس‘ نمبر اور ان کے بچوں کی تفصیل لکھوائی‘ اس نے ان کے ٹیلی فون نمبر تک لکھوا دیے‘ یہ کسی ان پڑھ نوجوان کے بس کی بات نہیں‘ پاکستانی خالہ کو موسی نہیں کہتے لیکن اجمل نے خالہ کو موسی لکھوایا‘ لاہور کا کوئی شخص داتا دربار کو علی ہجویری درگاہ نہیں کہتا مگر اجمل نے اسے علی ہجویری درگاہ لکھوایا‘ اجمل کے بیان میں ’’لاہور کا مزدوروں کا اڈہ‘‘ درج ہے‘ لاہور میں ایسا کوئی مقام نہیں‘ وہ ٹریننگ کے دوران بار بار حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ملاقات کا ذکر کرتا ہے‘ یہ بھی بعید از قیاس ہے‘ دنیا کا کوئی لیڈر کسی ادنیٰ کارکن سے اس طرح نہیں ملتا‘ یہ اعترافی بیان میں مریدکے اور مانسہرہ کے سفر کو بارہ گھنٹے قرار دیتا ہے‘ یہ لاہور سے مظفر آباد کے سفر کو 17 گھنٹے کہتا ہے‘ یہ بھی غلط ہے‘ ہم سب پاکستانی کشمیر کو آزاد کشمیر کہتے ہیں لیکن اجمل قصاب اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر لکھواتا ہے‘ دو جماعت پاس نوجوان سیٹلائٹ فون‘ جی پی ایس اور نقشے سمجھنے کا بھی ایکسپرٹ ہے‘ ہم ٹورسٹس کو سیاح کہتے ہیں مگر اجمل نے اسے درویشی سیلانی لکھوایا‘ پاکستان کیا پورے عالم اسلام میں رمضان عید نہیں ہوتی‘ مسلمان عیدالفطر کو چھوٹی عید اور عیدالاضحی کو بڑی عید کہتے ہیں لیکن اجمل نے چھوٹی عید کو رمضان عید قرار دیا اور ہم پاکستان میں میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل دونوں کو صرف جنرل کہتے ہیں مگر اجمل اپنے بیان میں میجر جنرل کو میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل لکھواتا ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟
یہ سارے سوال جواب چاہتے ہیں مگر بھارت کے کسی سمجھ دار اور غیرجانبدار شخص نے یہ جواب تلاش نہیں کیے‘ آپ انھیں بھی چھوڑ دیجیے‘ بھارت اس ڈیوڈ ہیڈلے کو کہاں رکھے گا جس نے 18 مارچ 2010 ء کوشکاگو کی عدالت میں اعتراف کیا تھا ’’ ممبئی حملوں میں میرا ہاتھ تھا‘‘ ڈیوڈ ہیڈلے ایف بی آئی اور سی آئی اے کا ڈبل ایجنٹ تھا اور بھارت اپنے سینئر بیورو کریٹ وی آر وی ایس منی اور سی بی آئی کے سینئر عہدیدار استیش ورما کے ان حلفی بیانات کا کیا جواب دے گا جس میں ان لوگوں نے انکشاف کیا ’’ 2001ء کے پارلیمنٹ اور 2008ء کے ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے تھے‘‘ بھارت ان سوالوں کے جواب کب اور کہاں دے گا؟۔
یہ اجمل قصاب کے مقدمے کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ اجمل قصاب نے بھارت میں17 فروری 2009ء کو اعترافی بیان دیا لیکن پاکستان نے اس اعترافی بیان سے پانچ دن قبل12 فروری کو حافظ سعید‘ ذکی الرحمن لکھوی‘ حماد امین صادق‘ مظہر اقبال‘ شاہد جمیل ریاض‘ عبدالواجد،محمد جمیل اور یونس انجم کے خلاف مقدمہ درج کر دیا‘ یہ لوگ گرفتار بھی ہو گئے‘ یہ مقدمہ پچھلے پانچ برسوں سے زیر التواء ہے اور اس کی واحد وجہ بھارتی رویہ ہے‘ یہ جرم کیونکہ بھارتی سرزمین پر ہوا تھا چنانچہ ثبوت پیش کرنے کی ذمے داری بھی بھارت کی تھی‘ عینی شاہدین اور گواہ بھی بھارت میں تھے ‘ پاکستان کی عدالتوں اور وکلاء کو گواہوں اور ثبوتوں تک رسائی بھی بھارت نے دینی تھی مگر بھارت نے پانچ برسوں میں یہ رسائی‘ یہ ثبوت نہیں دیے‘ پاکستانی وکلاء حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی پر الزام لگانے والے فہیم ارشد انصاری اور اجمل قصاب سے ملنا چاہتے تھے‘ بھارت نے اجازت نہیں دی‘ پاکستان نے بھارتی مجسٹریٹ اور تفتیشی افسر کو پاکستانی عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی‘ بھارت نے انکار کر دیا‘ پاکستانی عدالت نے استغاثہ اور صفائی کے وکلاء کو گواہوں کے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بھارت بھجوانے کا حکم دیا مگر بھارت سے اجازت نہ ملی‘ بھارت نے اصرار کے بعد 2012ء میں پاکستانی عدالتی کمیشن کو صرف چار گواہیاں ریکارڈ کرنے کی اجازت دی لیکن جب ان سے گواہوں پر جرح کا حق مانگا گیا تو بھارتی عدالت نے صاف انکار کر دیا‘ یوں ڈیڈ لاک ہو گیا‘ سفارتی کوششیں شروع ہوئیں تو پاکستانی وکلاء کو جرح کا حق دے دیا گیا مگر عدالتی کمیشن کے بھارت پہنچنے سے پہلے اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی یوں جرح کا سرے سے امکان ختم ہو گیا‘۔
اجمل قصاب کو کسی آزاد شخص‘ ادارے یا این جی او سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی‘ بھارت نے انصار برنی تک کو ملاقات کا موقع نہیں دیا‘ حافظ سعید اور لکھوی صاحب پر فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین نے الزام لگایا تھا‘ یہ دونوں بری ہو چکے ہیں لیکن الزام ابھی تک قائم ہے‘ مقدمے کے دوران دعویٰ کیا گیا‘ حملہ آوروں کے حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ٹیلی فونک رابطے تھے مگر تمام فرانزک رپورٹس نے اس الزام کو رد کر دیا‘ رپورٹس کے مطابق حملہ آور امریکی اور بھارتی نمبروں پر رابطے میں تھے‘ کسی فون کے ذریعے کسی پاکستانی نمبر پر رابطہ نہیں ہوا‘ ملزمان کو ای میل بھی ماسکو سے بھجوائی گئی تھی‘ بھارت آج تک حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘ پاکستانی عدالتی کمیشن اور تفتیشی افسروں تک کو بھارت جانے اور تفتیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ پاکستان کو مطلوب معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود بھارت کی طرف سے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سزا کا مطالبہ جاری ہے‘ بھارت اس معاملے میں اس قدر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ میاں نواز شریف 23 اکتوبر 2013ء کو صدر اوبامہ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس گئے تو صدر اوبامہ نے ڈرون حملوں پر بات چیت کے بجائے جماعت الدعوۃ کا کیس کھول لیا اور ممبئی اٹیکس پر گفتگو شروع کر دی‘ ہمارے وزیراعظم امریکی صدر کے دباؤ میں آ گئے اور انھوں نے باہر نکل کر پاکستانی میڈیا سے فرما دیا ’’ ہمیں بھی اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کرنا چاہیے‘‘ ہمارے وزیراعظم کو کسی نے اصل صورتحال بتائی ہی نہیں تھی چنانچہ جب امریکی صدر نے میاں نواز شریف کے سامنے جماعت الدعوۃ کا ایشو اٹھایا تو یہ پریشر میں آ گئے۔
حافظ سعید پاکستانیوں کے لیے محترم ہیں‘ یہ کشمیری ہیں‘ یہ کشمیر کی تحریک میں انتہائی فعال رہے‘حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے بے انتہا قربانیاں دیں‘ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کی بقا کے لیے میاں نواز شریف سے لے کرعام شہری تک ہر شخص ‘ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے اور یہ قربانی اگر جرم ہے تو پھر ہم سب مجرم بھی ہیں اور ہمیں اپنے اس جرم پر فخر بھی ہے‘ میاں نواز شریف اور حافظ سعید دونوں کا کاز ایک ہے‘ میاں نواز شریف نے کل آزاد کشمیر کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جن خیالات کا اظہار کیا‘ حافظ سعید اور ان کے ساتھی برسوں سے ان خیالات پر عمل کر رہے ہیں‘ حافظ سعید صاحب اور ان کی جماعت پاکستان کی چند بڑی فلاحی تنظیموں میں بھی شمار ہوتی ہے‘ یہ زلزلوں سے لے کر سیلابوں تک ملک کی ہر مشکل میں دامے،درمے اور سخنے شریک ہوتی ہے‘ آپ آواران کے زلزلے کو لے لیجئے 24 ستمبر 2013ء کو سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں شدید زلزلہ آیا‘ اس زلزلے میں بلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور آواران متاثر ہوئے‘ ریاستی ادارے آواران نہیں پہنچ سکے لیکن حافظ سعید کے ساتھی وہاں پہنچے بھی اور انھوں نے وہاں متاثرین کی مدد بھی کی لیکن ہم نے ان کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف کے بجائے ان پر مقدمے قائم کر رکھے ہیں‘۔
آج بھی ذکی الرحمن لکھوی صاحب سمیت چھ لوگ جیلوں میں پڑے ہیں‘ یہ لوگ اس بھارت کے ناحق دباؤ کی وجہ سے جیلوں میں ہیں جسے ہم آج بھی دشمن سمجھتے ہیں‘ جسے ہم بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور جسے ہم خودکش حملوں کا ماسٹرمائنڈ بھی کہتے ہیں۔چلیے ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں‘ یہ تمام الزام درست ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے ان الزامات کو ثابت کس نے کرنا ہے؟ کیا یہ بھارت کی ذمے داری نہیں؟ اگر ہاں تو کیا یہ اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم حافظ سعید صاحب اور ان کے ساتھیوں کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟ ہم آخر کب تک محب وطن لوگوں کو اپنا دشمن بناتے رہیں گے؟ ہم کب تک ریاست کے دوستوں کا دل توڑتے رہیں گے؟ کیا ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے بھی کوئی مذاکراتی کمیٹی بنانا پڑے گی؟
No comments:
Post a Comment