اب کسی صورت , کسی صورت پہ پیار نہیں آتا !
احمد کامران
فضالہ بن عمیر مکہ مکرمہ کا ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ عاشق مزاج
تھا۔ اس کا اپنی نازنین محبوبہ سے وہی تعلق تھا، جو گل وبلبل کا ہوتاہے۔
نازنین بھی اُس پر جان چھڑکتی تھی۔ دونوں صحرا کی وسعتوں میں ٹاپتے پھرتے
تھے۔ ریت کے پست وبلند ٹیلے عبور کرکے دُور نکل جاتے تھے۔
ایک دن اُس نے ایک ٹیلے پر کھڑے کھڑے عجیب منظر دیکھا۔ ہزاروں نورانی چہروں
والے مجاہدین اونٹوں اور گھوڑوں پر بیٹھے خراماں خراماں مکہ مکرمہ میں
داخل ہورہے ہیں۔ اُن کے سالار اعظم حضرت محمدﷺایک اونٹ پر تشریف فرماہیں۔
سرمبارک عجز ونیاز کے ساتھ بارگاہ ربانی میں جُھکاہواہے اور زبان مبارک پر
وحدہٗ، نصر عبدہ کا زمزمہ جاری ہے…دوسری قوموں کے فاتح جرنیل اور ان کے
لشکر جہاں بھی جاتے ہیں کُشتوں کے پشتے لگاتے ہیں، خون کے دریا بہاتے ہیں
اور اپنی فتح مندی کا پرچم لہراتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے سالار اعظم محمد
ﷺکی شان سب سے نرالی ہے۔ آپ ﷺ نے خون کی ایک بُوند بہائے بغیر مکہ فتح
کرلیا۔
اب سب مشرکین ِمکہ قطار اندر قطار محمد رسول اللہﷺ کے حضور نگاہ نیچی کیے
کھڑے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیںجو رحمت للعالمین ﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔ جنھوںنے
اس محسنِ انسانیتﷺ کی راہ میں صرف اس لیے کانٹے بچھائے کہ یہ فردِ فرید
لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، بدی سے نیکی کی
طرف اور اصنام باطل سے ہٹاکر اللہ جل جلالہ کی طرف کیوں بُلا رہاہے۔ آج ان
سب مشرکین کا غرور خاک میں مل چکاتھا،ان کے حوصلوں کی کمانیں ٹوٹ گئی
تھیں،ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اورآنکھوں میں ندامت کے آنسو تیر رہے
تھے۔ یہ لوگ کپکپارہے تھے کہ اب نہ جانے حضرت محمدﷺہمیں کتنی کڑی سزا دیں
گے۔ یہ لوگ انھی اندیشوں میں گم تھے کہ دفعتاً محسن ِ انسانیت ﷺنے فرمایا:
میں تم سے کوئی بازپُرس نہیں کروں گا۔ میں تم سب کو ایمان اور امن کی بشارت
دیتاہوں۔ جاؤ! تم سب آزادہو … سارے مشرک اور کافر رحمت للعالمین ﷺکا یہ
بے مثل کریمانہ سلوک دیکھ کر ہکابکا ہوگئے، ان کے دل نے گواہی دی کہ حضرت
محمدﷺاللہ کے سچے رسول ہیں۔اُنھوں نے بے اختیارجوق درجوق اسلام قبول کرلیا
اور شکر وسپاس کے ساتھ واپس چلے گئے۔
اس ہجوم میں فضالہ بن عمیر بھی تھا ،لیکن اُس کے دل کی سیاہی ابھی تک نہیں
مٹی تھی۔ وہ لوگوں کے دل میں رسول اللہﷺکا زبردست اکرام واحترام دیکھ کر
حسد کے مارے جل کر کباب ہوگیا۔ اُس نے دل ہی میں یہ گھناؤنا ارادہ کرلیا
کہ میں محمدﷺکو قتل کردوں گا۔ اُس نے اپنا خنجر تیز کیا، جیب میں رکھا اور
رات کی تاریکی میں بیت اللہ کی دیوار کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔
اگلے دن رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور اپنے رب کی یاد میں ڈوب کر بیت اللہ کا
طواف کرنے لگے۔ فضالہ نے رسول اللہ ﷺکو تنہا پایا ،تولپک کر بیت اللہ کے
صحن میں آدھمکا اور رسالت ِمآبﷺکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ حضورﷺنے آہٹ
سنی، مُڑکر دیکھا ،تو بڑی نرمی اور نوازش سے فرمایا: کیا تم فضالہ ہو؟
فضالہ: جی ہاں! میں فضالہ ہوں۔
رسول اللہﷺ: اچھا، کیسے آئے؟ کیا ارادہ ہے؟
فضالہ: کوئی خاص ارادہ نہیں، بس اللہ اللہ کرنے آیاہوں۔
آپﷺمسکرائے۔ آگے بڑھے اور فضالہ کے کان میں چپکے سے فرمایا:
افسوس! تم کتنے بُرے ارادے سے آئے ہو، اللہ سے ڈرو۔
آپ ﷺکا یہ ارشاد سن کر فضالہ تھرتھر کا نپنے لگا…آپﷺنے فرمایا:
ڈرومت! پھر تسلی دینے کے لیے آپﷺنے اُس کے سینے پراپنا دستِ مبارک رکھ
دیا اور فرمایا:
اپنے بُرے ارادے پر اللہ رب العزت سے معافی مانگو۔
فضالہ کا بیان ہے کہ جونہی حضورﷺنے میرے سینے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے ایسابے
تحاشا سکون اورآسُودگی نصیب ہوئی، جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں
ابھی چند لمحوں پہلے جس ہستی کو قتل کرنے آیاتھا، اب میرے دل میں اُسی کی
محبت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔
فضالہ کہتے ہیں کہ پھرتومیں حضرت محمدﷺپر مرمٹا۔ انھیں دیر تک نہایت محبت
وعقیدت سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا۔ جوں جوں میں آپﷺ کو دیکھتا جاتاتھا
میرے دل کی روشنی بڑھتی جاتی تھی۔ اور میری رُوح کو دم بدم ایسی فرحت نصیب
ہو رہی تھی جسے بیان کرنے کے لیے مجھے الفاظ نہیں ملتے۔ میں اسی سُرور اور
سرشاری کی حالت میں واپس جارہاتھا کہ راستے میں میری محبوبہ مل گئی۔ اُس نے
حسبِ معمول بڑی دلنوازی سے میرا استقبال کیا اورکہنے لگی: آؤ! دنیا کی
نگاہوں سے کہیں دُور چلیں ۔ میں نے کہا: جا اللہ کی بندی! اپنا رستہ لے ۔اب
تو میرے دل میں اُس ہستیﷺ کا جمال سماگیاہے ،جس سے زیادہ حسین وجمیل بطلِ
جلیل کسی ماں نے نہیں جنا، بقول شاعر:
اُن سے مل کر ایسا بدلاہے نگاہوں کا مزاج
اب کسی صورت، کسی صورت پہ پیار آتا نہیں
(احسان دانش)
٭…٭…٭
No comments:
Post a Comment